پیرس شہر کی تاریخ کا ایک نسوانی پہلو بھی ہے
21 اگست 2022پیرس کا دورہ کرنے والوں کے لیے اب تک اس شہر کی تاریخ مردوں کی کامیابیوں کے گرد گھومتی تھی۔ فرانسیسی دارالحکومت کی تاریخ میں خواتین نے کیا کردار ادا کیا، عموماً یہ پہلو اندھیرے ہی میں رہا۔ تاہم اب یہ صورت بدل چکی ہے۔
یورپ کے رومانوی کشش سے بھرپور شہر پیرس کی ایک اجلی، دھوپ سے چمکتی صبح ٹورسٹ گائیڈ مینا بریاں پیرس کے ایک لیجنڈری کیفے 'لے دو ماگو‘ اور 'ساں گرماں دے پرے چرچ ‘ سے گزرتے ہوئے سیاحوں کے ایک گروپ کو لے کر ایک ہری بھری گلی کی طرف مڑ جاتی ہیں، جو کچھ فاصلے کے بعد ایک کشادہ صحن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کیفے اور چرچ کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اس سبزہ زار مقام یا نخلستان میں ایک معروف پبلشنگ ہاؤس 'ایڈیسیون دے فم‘ یا 'ویمن ایڈیشن‘ قائم ہے۔ یہ یورپ میں خواتین کا پہلا پبلشنگ ہاؤس یا اشاعت گھر تھا۔ اس کی بنیاد 1970ء کے اوائل میں انٹونیٹ فوق نے رکھی تھی۔ انٹونیٹ فوق فرانس کی 'ویمنز لبریشن موومنٹ‘ ایم ایل ایف بنانے والے مختلف گروپوں میں سے ایک کی قائد بھی تھیں۔
فرانس، سوئمنگ پولز میں برکینی پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی
مینا بریاں 'ویمن آف پیرس‘ نامی ایجنسی کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ اس پبلشنگ ہاؤس کے وجود میں آنے کے بارے میں بتاتی ہیں، ''یہ وہ دور تھا جس وقت فرانس اسقاط حمل کے منشور کے خلاف مظاہروں کی شدت سے لرز رہا تھا۔ جسے حقوق نسواں کے موضوع پر لکھنے والی معروف مصنفہ سیمون دے بووُوآ نے تحریر کیا تھا۔ یہ پبلشنگ ہاؤس آج بھی موجود ہے، بشمول ایک کتب خانے اور ایک گیلری کے۔ اس گیلری میں خواتین مصنفین کی تخلیقات کو متعارف کرایا جاتا ہے۔‘‘
نظر انداز کی جانی والی خواتین
فرانس کے دارالحکومت میں خواتین مصنفین اور پبلشرز کی جدوجہد اور کامیابیوں کو تلاش کرنے والے دورے کا ایک عمدہ آغاز۔ پبلشنگ ہاؤس سے چند گلیوں کے فاصلے پر، بریاں ایک روشن اپارٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہاں 1890 ء میں فرانسیسی مصنفہ زیڈونی گابرئیل کؤلیٹ اور ان کے شوہر ویلی رہا کرتے تھے جو ایک ناشر اور مدیر تھے۔ گابریل کؤلیٹ نے اپنی مقبول ترین کتابیں یہیں بیٹھ کر لکھی تھیں۔ بریاں نے بتایا کہ کؤلیٹ کے شوہر ویلی انہیں ایک کمرے میں کئی کئی گھنٹوں کے لیے بند کر دیا کرتے تھے تاکہ وہ پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ اپنی کتابیں لکھ سکیں، کیونکہ ان کتابوں کی شکل میں وہ کؤلیٹ کی صلاحیت سے پیسے بنایا کرتے تھے۔‘‘
فرانس میں ملکہ کا امیج برا ہے
2016 میں 'ویمن آف پیرس‘ ٹورز کے سلسلے کا آغاز کرنے والی ہیڈی ایونز نے خواتین کی تاریخ اور شہر کے فنون، تھیٹر، ادب، ثقافت اور سیاست پر ان کے واضح اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات آگے بڑھانے کے کام کا آغاز کیا اور مذکورہ شعبوں میں خواتین کے اہم کردار کو اجاگر کرنے کے موضوع پر مبنی واکس کا سلسلہ شروع کیا۔ ایونز کا کہنا ہے، ''فرانس کی تاریخ میں خواتین صدیوں سے پوشیدہ ہی رہی ہیں۔‘‘ لندن میں یہ صورت حال بالکل مختلف ہے۔ وہاں ملکہ سیاحوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ہوتی ہے، سب سے زیادہ مقبول بادشاہت وہ ہوتی ہے جس کی حکمران عورت ہو۔ مجھے یہ سب سے زیادہ حیران کن لگا کہ فرانس کا اپنی ملکہ کے بارے میں نظریہ کتنا منفی ہے۔‘‘
یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس میں کیوں؟
فرانس اپنی خواتین کا کتنا کم احترام کرتا ہے، اس کا اندازہ لاطینی کوارٹرز میں ایک پہاڑی پر واقع فرانس کے سب سے بڑے مقبرے Panthéon میں جا کر ہوتا ہے۔ وہاں صرف چند خواتین دفن ہیں۔ طبیعیات دان اور نوبل انعام یافتہ میری کیوری پہلی خاتون تھیں، جنہیں بعد از مرگ 1995ء میں وہاں دفنایا گیا۔ دیگر خواتین ان کے بعد وہاں دفنائی گئیں، جن میں ہولوکاسٹ کے دوران بچ جانے والی اور خواتین کے حقوق کی علامت سیمون ویل بھی شامل ہیں۔ پچھلے برس امریکی نژاد رقاصہ، گلوکارہ اور شہری حقوق کی کارکن جوزفین بیکر پینتھیوں میں دفن ہونے والی پہلی سیاہ فام شخصیت بن گئیں۔ عجائب گھروں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، مثال کے طور پر لوور میں۔ ایونز کا کہنا ہے کہ تقریباً 5 لاکھ آرٹ ورکس یا فن پاروں میں سے صرف 300 خواتین کے بنائے ہوئے تھے۔
کہانی مکمل طور پر سنائی جانا چاہیے
'ویمن آف پیرس‘ صرف وہ واحد گروپ نہیں، جو پیرس کی تاریخ پر نظرثانی کرنے اور خواتین کے تعاون کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ دوسرے مخصوص گروپ اب عجائب گھر لوور اور 'میوزے ڈورسے‘ نامی عجائب گھر کے ساتھ ساتھ ایک مشہور قبرستان کے دوروں کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔
تاہم Heidi Evans کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دوروں میں جان بوجھ کر لفظ 'نسائیت پسند‘ سے گریز کرتی ہیں تاکہ انہیں وسیع تر پبلک کی توجہ مل سکے، نہ کہ محض سرگرم خواتین کی۔ وہ کہتی ہیں، ''خواتین نے بھی اتنی ہی کامیابیاں اور نام کمائے جتنے کہ مردوں نے۔ میرے خیال میں ماضی کی معروف خواتین مستقبل کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔‘‘
ک م / م م (سونیا پھالنیکر)