پیشاب بھی توانائی کے حصول کا ذریعہ، عملی استعمال قریب تر
13 اپریل 2016ماہرین اس حوالے سے سوال یہ پوچھتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے کہ جسے اب تک مائع انسانی فضلہ سمجھا جاتا ہے، اگر وہی فاضل مادہ توانائی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکے تو کیسا رہے گا؟
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی پیشاب سے عملی طور پر بجلی کی پیداوار اب ناممکن نہیں ہے اور یہ عمل نہ صرف مؤثر اور حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو گا بلکہ اس طرح بہت زیادہ مقدار میں مائع انسانی فضلے کو دیرپا طریقے سے ٹھکانے بھی لگایا جا سکے گا۔
یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پیشاب انسانی جسم کا ایک ایسا مائع فاضل مادہ ہے، جو ہر انسان کی روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بھی ہے۔ اسی طرح بجلی بھی ہر انسان کی ہر روز کی ضرورت ہے۔ کئی ملکوں میں سائنسدان عشروں سے اب بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ آیا ان دونوں باتوں کو آپس میں مربوط بنا کر کوئی مثبت اور فائدہ مند صورت حال پیدا کی جا سکتی ہے۔
2014ء میں برسٹل یونیورسٹی کی روبوٹکس لیبارٹری کے ماہرین نے یہ تو کر دکھایا تھا کہ پیشاب سے ایک موبائل فون چارج کیا جا سکتا ہے۔ اب ایک نئے تحقیقی مطالعے نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ پیشاب کو بجلی کی پیداوار کے لیے ایک ذریعے کے طور پر بھی استعمال میں لیا جا سکتا ہے اور اس عمل کے ممکنہ طور پر وسیع پیمانے پر استعمال کے پیش نظر اسے کم لاگت والا اور بہت تیز رفتار عمل بنانے پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے۔
لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر انسانی پیشاب یا urine کو توانائی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جائے تو اسے عام انسانوں کی زندگیوں میں ایک معمول کی بات بننے میں کتنا وقت لگے گا۔ پھر لوگ یہ بھی پوچھیں گے کہ بھلا پیشاب سے بجلی تیار کیسے کی جا سکتی ہے؟
ایک ٹریلین لٹر مائع فاضل مادہ
پیشاب انسانی جسم سے خارج ہونے والے دیگر فاضل مادوں کی طرح تاریخ میں کئی مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان مقاصد میں طبی استعمال سے لے کر زرعی استعمال تک شامل ہیں۔ اس تناظر میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ ایک عام انسان ہر روز اپنے جسم سے 0.8 لٹر سے لے کر دو لٹر تک پیشاب خارج کرتا ہے۔ اگر اس تناسب سے زمین پر مجموعی انسانی آبادی اور اس کے پیشاب کا حساب لگایا جائے تو اس مائع فاضل مادے کی یومیہ مقدار قریب 1.4 ٹریلین لٹر بنتی ہے، جو زیادہ تر نکاسی آب کے نظاموں میں چلا جاتا ہے۔
اس موضوع پر ایک نئی تحقیق کی شریک مصنفہ میریلا ڈی لورینزو کہتی ہیں کہ اتنی زیادہ مقدار میں مائع فاضل مادے کو ری سائیکل کرنے کے لیے اس کا مناسب انتظام کرنا ہو گا اور اس پر اٹھنے والی لاگت کا بھی دھیان رکھنا ہو گا۔
میریلا ڈی لورینزو نے اپنے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس ری سائیکلنگ پر اتنی زیادہ توانائی خرچ ہو گی، جو ہماری فی کس روزانہ ضروریات کا ایک مقررہ حصہ ہو گی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس طرح فاضل مادے کو توانائی کے ذریعے کے طور پر استعمال میں لایا جا سکے، نہ کہ کوئی ایسا طریقہ جو اس کے برعکس ہو اور بہت مہنگا ہو۔‘‘
مائع فضلہ قابل استعمال کیسے ہو گا؟
پیشاب سے بجلی پیدا کرنے کے اس عمل کی خاص بات یہ ہو گی کہ توجہ پیشاب میں موجود بیکٹیریا پر دی جائے گی۔ ماحول میں موجود آکسیجن دستیاب نہ ہو تو پیشاب میں موجود بیکٹیریا بریک ڈاؤن کے عمل کے باعث الیکٹرون پیدا کرتے ہیں، نہ کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ایسے الیکٹرو کیمیکل آلات، جو مائیکروبیئل فیول سیل کہلاتے ہیں، ان الیکٹرونز کی توانائی کو بڑی مستعدی سے بجلی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
اب تک ہوا یہ ہے کہ مائیکروبیئل فیول سیلز سے بجلی پیدا تو کی گئی ہے لیکن یہ سیل بہت مہنگے ہیں اور ان کے استعمال سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار بہت کم۔ اسی لیے ماہرین کی توجہ اب اس بات پر ہے کہ مائیکروبیئل فیول سیلز کو سستا بنایا جائے اور ان کے استعمال سے پیشاب سے پیدا کی جانے والی بجلی کی مقدار زیادہ ہو۔
جس دن یہ دونوں کام ہو گئے، اس روز توانائی کے حصول کے لیے ماحول دوست، دیرپا اور متبادل ذرائع کے استعمال کے اب تک کے رجحان میں ایک انقلاب آ جائے گا اور یہ بات کسی کے لیے بھی حیران کن نہیں ہو گی کہ 1.4 ٹریلین لٹر انسانی پیشاب کے بڑے حصے کو روزانہ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔