پینگانگ جھیل پر چینی پل کی تعمیر غیر قانونی ہے، بھارت
5 فروری 2022بھارت کی مودی حکومت نے جمعہ چار فروری کو ملکی پارلیمان کو آگاہ کیا کہ مشرقی لداخ میں ایل اے سی کی معروف پینگانگ جھیل پر چین جس نئے پل کو تعمیر کر رہا ہے وہ ’’غیر قانونی طور پر قبضہ کیے گئے علاقے میں واقع ہے‘‘۔
مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو جاری رکھتے ہوئے، چین معروف جھیل پینگانگ پر ایک نیا پل تعمیر کر رہا ہے۔ یہ پل لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ہی واقع ہے اور گزشتہ چند ماہ سے زیر تعمیر ہے۔
عسکری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پل جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کے درمیان فوجیوں کو تیزی سے تعینات کرنے کے لیے ایک اضافی محور کے طور پر کام کرے گا اور اس سے چین کی دفاعی صلاحیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
بھارت کا مؤقف
بھارتی پارلیمان میں بھارت کے مقبوضہ علاقوں کی حیثیت اور چین بھارت سرحد پر موجودہ صورتحال سے متعلق ایک سوال کیا گيا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خارجہ امور وی مرلی دھرن نے یہ بات کہی ہے کہ بھارت نے چین کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے نئے پل کا سخت نوٹس لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’یہ پل ان علاقوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے جو سن 1962ء سے چین کے غیر قانونی قبضے میں ہیں۔ بھارتی حکومت نے اس غیر قانونی قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔‘‘ واضح رہے کہ سن 1962ء کی بھارت چین جنگ میں دہلی کو بڑی ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا تھا۔
بھارتی وزیر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا بھارت نے اس مسئلے کو چین کے ساتھ اٹھایا ہے یا کوئی بات کی ہے، تو انہوں نے کہا، ’’حکومت نے کئی بار یہ واضح کیا ہے کہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقے بھارت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے ممالک بھارت کی خود مختاری اور اس کی علاقائی سالمیت کا احترام کریں گے۔‘‘
ان سے جب یہ سوال کیا گيا کہ کیا حکومت کا لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے بھارتی فوجیوں کو ہٹانے کا کوئی منصوبہ ہے یا پھر کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے، ’’بھارت اور چین نے سفارتی اور عسکری دونوں ذرائع سے بات چیت کو جاری رکھا ہوا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے سینیئر فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت کا آخری دور 12 جنوری کو ہوا تھا۔
نیا پل اسٹریٹیجک اعتبار بہت اہم ہے
اطلاعات کے مطابق ایل اے سی پر واقع پینگانگ جھیل پر پل کی تعمیر جس مقام پر ہو رہی ہے وہ چین کے زیر انتظام ہے، تاہم اس مقام سے محض چند میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں تک اس وقت بھارت کی رسائی ممکن ہے۔ پینگانگ جھیل کے جنوبی کنارے پر تو سڑک پہلے ہی سے موجود ہے تاہم شمالی کنارا پہاڑوں سے گِھرا ہے اور وہاں تک کسی کو بھی آسانی سے رسائی حاصل نہیں ہے۔
اس پل کی تعمیر سے چین کی فوج کو آسانی سے جھیل کے دونوں کناروں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ پینگانگ سو جھیل، 135 کلومیٹر لمبی ہے، جس کا دو تہائی سے زیادہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ چین اسی جھیل میں خرناک قلعے کے پاس ہی نیا پل بنا رہا ہے۔ یہ علاقہ کبھی بھارت کے پاس ہوا کرتا تھا۔
مئی 2020ء میں چین اور بھارت کے درمیان ایل اے سی پر اسی جھیل سے فوجی کشیدگی کے آغاز ہوا تھا۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ 15 جون 2020ء کی رات کو وادی گلوان میں دونوں افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے میں چین کے بھی چند فوجی مارے گئے تھے۔
اروناچل پردیش سے متعلق چین کا نیا اقدام
چین نے اس برس یکم جنوری سے اپنے اس نئے سرحدی قانون کو نافذ کیا ہے، جس میں اپنے سرحدی دفاع کو مضبوط بنانے، سرحدوں کے قریب نئے دیہات بسانے اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق صورت حال کے پیش نظر سرحدی علاقوں میں جب بھی ضرورت پڑے ہنگامی اقدامات بھی نافذ کیے جا سکتے ہیں۔
اس قانون کے نفاذ سے عین قبل، چین نے اپنے نقشے میں بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے 15 مقامات کا نام تبدیل کر کے نیا نام بھی رکھا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کا اروناچل پردیش اس کے علاقے تبت کا ہی ایک حصہ ہے اور وہ اس ریاست پر بھارتی قبضے کو غیر قانونی بتاتا ہے۔ تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ ارونا چل اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔
اس حوالے بھی ایک سوال کے جواب میں پارلمیان کو بتایا گیا، ''حکومت نے ریاست اروناچل پردیش کے بعض مقامات کے نام تبدیل کرنے کی رپورٹوں کو بھی نوٹ کیا ہے۔ یہ ایک فضول کی مشق ہے جو اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتی کہ اروناچل پردیش ہمیشہ سے بھارت کا اٹوٹ حصہ رہا ہے، فی الوقت ہے اور آگے بھی رہے گا۔‘‘