چار لاکھ سے زائد بے گھر قبائلی، ’جنہیں میڈیا بھی بھول گیا‘
24 جون 2014فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پناہ گزینوں کی کُل تعداد چار لاکھ تئیس ہزار ہو گئی ہے جبکہ ان میں خواتین کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد اور بچوں کی تعدادایک لاکھ 78 ہزار ہے۔ ایف ڈی ایم اے کے مطابق اب تک پناہ گزینوں کے صرف 18خاندانوں نے ایف آر بنوں کے علاقے بکا خیل میں قائم پناہ گزین کیمپ میں رہنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
دوسری جانب صوبہ خیبر پختوانخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نقل مکانی کرنیوالے افراد کی فوری امداد کے لئے صوبائی حکومت کو چھ ارب روپے کی رقم جاری کرے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کے پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ہمراہ ایف آر بنوں اور سیدکی میں رجسٹریشن پوائنٹ کے دورے کے بعد گزشتہ شام اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تیرہ سے چودہ افراد پر مشتمل متاثرین کے خاندان کو سات ہزار روپے کی قلیل رقم دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم کم ازکم اکیس ہزار روپے ہونی چاہیے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق افغانستان ہجرت کرنیوالے پاکستانی قبائلیوں کو تینتیس ہزار روپے فی خاندان دیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق نقل مکانی کرنیوالوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔عمران خان نے حکومت کو انتباہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سانحہ ہونیوالا ہے۔گرمی کی انتہا ہے ۔ وہاں ڈیڑھ لاکھ صرف بچے ہیں۔ ایک لاکھ دس ہزار عورتیں ہیں۔ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ لوگ چل کر آرہے ہیں، راستے میں لوگ مر ے ہیں، بچے مرے ہیں اور جو لوگ آرہے ہیں ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘
تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنیوالے اکثر بچوں نے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کے قطرے بھی نہیں پی رکھے، جو پولیو کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ انہوں نے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ شمالی وزیرستان کے آپریشن سے متاثرہ افراد کا اپنے صوبوں میں داخلہ بند نہ کریں۔
’جنہیں میڈیا بھی بھول گیا‘
بعض حلقے فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنیوالوں کی مشکلات کی ملکی میڈیا میں معمولی کوریج پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ادھر متاثرین کی جانب سے بھی بالواسطہ طور پر یہ شکوہ سامنے آیا ہے کہ میڈیا بھی انہیں بھول گیا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے رجحانا ت پر نظر رکھنے والے صحافی اور اینکر پرسن مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ وزیرستان میں فوجی کارروائی ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب بظاہر پاکستانی میڈیا مخلتف ایشوز پر تقسیم کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس میڈیا کی تقسیم کی وجہ سے عوام کا جو مفاد ہے وہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ یقیناﹰ آئی ڈی پیز جب میڈیا پر اپنی کہانیاں بیان کریں گے تو پھر اس میڈیا کے لئےحکومتی پالیسیوں پر تنقید نہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا اور اس آپریشن میں جو خامیاں ہیں، ان کو اجاگر نہ کرنا۔ اس آپریشن کے دوران جو بنیادی حقوق اگر متاثر ہو رہے ہیں تو ان کو بھی اجاگر کرنا میڈیا کا فرض بنتا ہے۔‘‘
مطیع اللہ جان کے مطابق ملکی میڈیا پر گزشتہ کئی دنوں سے عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی ملکی واپسی کا معاملہ چھایا ہوا ہے اور تمام میڈیا دن رات اُسی کی کوریج میں مصروف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں شمالی وزیرستان آپریشن کے متاثرین سمیت دیگر عوامی مسائل میڈیا کی ترجیحات میں شامل نہیں۔