چار ملین امریکی سرکاری ملازمین کا ڈیٹا چوری، الزام چین پر
5 جون 2015بیجنگ حکومت نے ایسے بیانات کو غیر ذمے دارانہ قرار دیا ہے۔ اُدھر نیوز ایجنسی روئٹرز نے واشنگٹن سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ امریکی تفتیش کار اس رُخ پر تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ سارا کیا دھرا غالباً چین میں بیٹھے ہوئے ہیکرز کا ہے۔ امریکا کے سائبر تفتیش کار اس تازہ واقعے کی کڑیاں اسی طرح کی ڈیٹا چوری کے اُن دو سابقہ واقعات کے ساتھ ملا رہے ہیں، جن سے امریکا کی دوسری بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی اینتھم اور صحت ہی کے شعبے میں خدمات فرام کرنے والے ایک ادارے پریمیرا بلیو کراس کو دوچار ہونا پڑا تھا۔
ہیکرز نے اپنی تازہ واردات میں امریکی سرکاری ملازمین کا ریکارڈ رکھنے والے آفس آف پرسنل مینیجمنٹ (OPM) کو نشانہ بنایا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ایک امریکی ادارے نے روئٹرز کو بتایا کہ غالباً اس تازہ چوری کے پیچھے کسی ’غیر ملکی گروپ یا حکومت‘ کا ہاتھ ہے اور اس رُخ پر تفتیش کی جا رہی ہے کہ کہیں اس واردات کا کڑیاں چین سے تو نہیں جڑتیں۔ تفتیش کاروں نے ہیکرز کے کام کرنے کے طریقے کی بنیاد پر کہا ہے کہ جرائم پیشہ لوگ عام طور پر ایسا نہیں کرتے بلکہ یہ طریقہٴ واردات جاسوسی کرنے والے عناصر کا ہوتا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ آفس آف پرسنل مینیجمنٹ (OPM) کو اپنے کمپیوٹرز کے ڈیٹا کے متاثر ہو جانے کا پتہ اپریل میں چلا تھا جبکہ ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ مئی کے شروع میں اس نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ چار ملین کے قریب موجودہ یا سابقہ ملازمین کا ڈیٹا اس ہیکنگ سے متاثر ہو سکتا ہے۔
اس سے پہلے بھی امریکی سرکاری کمپیوٹرز تک ہیکرز کی رسائی کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ جریدے نیویارک ٹائمز نے امریکی حکام کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ سال جولائی میں بتایا تھا کہ چینی ہیکرز نے آفس آف پرسنل مینیجمنٹ (OPM) کے کمپیوٹر نیٹ ورک میں نقب لگانے اور ایسے ہزارہا سرکاری ملازمین کی فائلوں تک رسائی کی کوشش کی تھی، جنہوں نے سکیورٹی کلیئرنس کے لیے درخواستیں دی تھیں۔
امریکی حکومت ایک طویل عرصے سے ایسی سائبر جاسوسی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتی چلی آ رہی ہے، جس کے کرتا دھرتا ممکنہ طور پر چین سے سرگرمِ عمل تھے۔ ساتھ ساتھ امریکی حکومت چین پر اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات پر بھی زور دیتی رہی ہے۔
تازہ امریکی بیانات پر بیجنگ میں چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے معمول کی نیوز بریفنگ میں کہا، چین امید کرتا ہے کہ امریکا زیادہ اعتماد کا اظہار کرے گا اور زیادہ تعاون کرے گا۔ ہونگ نے کہا: ’’پوری طرح سے تحقیقات کیے بغیر ہمیشہ یہ کہہ دینا کہ ایسا ممکن ہے، غیر ذمے دارانہ اور غیر سائنسی رویہ ہے۔‘‘ اس بیان پر امریکا کی جانب سے ابھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے امریکی فوج کی جانب سے پُر زور انداز میں ایسے سائبر حملوں کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے، جو ممکنہ طور پر چین، روس اور دیگر حریف ممالک کی جانب سے کیے گئے تھے۔ اس سال اپریل میں امریکی محکمہٴ دفاع کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ سال چینی حکومت سے وابستہ ہیکرز نے بار بار امریکی فوج کے نیٹ ورکس میں نقب لگانے اور انٹیلیجنس معلومات تک رسائی کی کوشش کی۔