چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: عدالتی اختیارات پر نئی بحث شروع
16 اکتوبر 2018چيف جسٹس کے خلاف دائر کردہ اس ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے اتنظامی معاملات میں مداخلت کی، غیر ضروری طور پر از خود نوٹس ليے، عدلیہ کو متنازعہ بنایا اور دورانِ سماعت ایسے جملے کہے، جو ایک جج کے شایانِ شان نہیں ہے۔ کئی سياسی مبصرین کے خیال میں ثاقب نثار نے متعدد عوامی مسائل پر از خود نوٹس لیا، جس کی وجہ سے ايک طرف تو عوامی حلقوں میں ان کی پذیرائی بڑھی تاہم ناقدین کے خیال میں ان کے غیر معمولی طور پر متحرک ہونے سے عدلیہ کے کاموں میں اضافہ ہوا اور سائلین کے مسائل بڑھے۔
ویمن ایکشن فورم کی ايک رکن مہناز رحمان کے خیال میں یہ ریفرنس اس بات کا غماز ہے کہ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’لاکھوں کی تعداد میں عدالتوں میں مقدمات زیرِ التواء ہیں، جس کی وجہ سے سائلین اور خصوصاً خواتین کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مقدمات برسوں چلتے رہتے ہیں لیکن فیصلے نہیں ہو پاتے۔ کچھ فیصلے تو سائلین کی وفات کے بعد بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی عدالتوں میں کرپشن کی بھر مار ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ جوڈیشل اصلاحات کی جاتيں اور سائلین کے مسائل حل کيے جاتے لیکن چیف جسٹس صاحب نے انتظامی معاملات میں الجھنا شروع کر دیا۔ ان کی پریشانی بجا ہو سکتی ہے لیکن آپ متعلقہ اداروں کو احتساب کی ضد میں لائیں، خود عدلیہ تو ہر کام میں مداخلت نہیں کر سکتی۔‘‘
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں چیف جسٹس کی طرف سے ازخود نوٹسسز اور توہینِ عدالت کی کارروائیوں نے بھی بہت سے حلقوں کو ناراض کیا۔ مہناز رحمان کا خیال ہے کہ توہینِ عدالت کے نوٹسسز بھی امتیازی ہیں۔ ’’میرے خیال میں سیاست دان فرشتے نہیں ہیں لیکن لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسند کھلے عام ججوں اور عدلیہ کو گالیاں دیں تو چیف جسٹس صاحب حرکت میں نہیں آتے اور سیاست دانوں کو فوراً بلا لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گمشدہ افراد کے مسئلے پر بھی خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے جب کہ کئی دوسرے غیر اہم مسائل کو اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘
اس ریفرنس کو ملکی عدالتی تاریخ کا ایک اہم عنصر قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی ليے کئی ناقدین اس پر تبصرہ کرنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو نے افراسیاب خٹک، جو ریفرنس پر دستخظ کرنے والوں ميں سے ایک ہیں، نے اس مسئلے پر تبصرہ کرنے کا کہا تو ان کا کہنا تھا، ’’ریفرنس میں جو وجوہات درج کی گئی ہیں، میں ان کے علاوہ مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیمیں چیف جسٹس کے جہاں کئی اقدامات کی ناقد ہیں، وہاں مزدور انجمنوں اور حساس موضوعات پر ان کے تبصروں اور جملوں پر بھی چراغ پا ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کے خیال میں ایسے جملوں نے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’چیف جسٹس صاحب نے کسی مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ ان کا بس چلے، تو وہ ٹریڈ یونینز پر پابندی لگا دیں۔ یہ حق آئین نے مزدوروں کو دیا ہے۔ چیف جسٹس نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے، وہ ایسی باتیں کیسے کر سکتے ہيں؟ یہ تو آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح انہوں نے کئی باتیں بغیر کسی تحقیق کے کہہ دیں۔ مثلاً حکومت کی اپنی تحقیق کے مطابق سندھ میں بائیس لاکھ ایکڑ زمین سمندر کی نظر ہو چکی ہے اور اس کی ایک وجہ بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ لیکن چیف جسٹس کا یہ فرمان ہے کہ جو ڈیم کی مخالفت کرے گا اس پر غداری کا مقدمہ قائم ہوگا۔ پالیسوں پر تنقید کا حق آپ کے بنیادی حقوق میں سے ايک ہے، ثاقب نثار صاحب اس کو کیسے چھین سکتے ہیں۔ تو اسی طرح کے کئی اقدامات ہیں، جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا ہے اور یہ باتیں ان کے شایانِ شان نہیں ہیں۔‘‘
چیف جسٹس کے از خود نوٹسسز صرف سول سوسائٹی یا سیاست دانوں کی طرف سے تنقید کی زد میں نہیں آ رہے ہیں بلکہ وکلاء برادری بھی اس پر تحفظات رکھتی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اختر حسین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری بار کونسل کی قرارداد ہے کہ صرف چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ اختیار سینئر ججوں کی ایک کمیٹی کے پاس ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ ریفرنس یہ پیرا میٹرز طے کرے کہ کن مسائل پر از خود نوٹس لیا جانا چاہیے۔‘‘
ریفرنس دائر کرنے والوں میں سے کچھ نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شايد ان کو توہینِ عدالت کا نوٹس مل جائے لیکن اختر حسین کے خیال میں قانون میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس دیا جائے۔ ’’میرے خیال میں جب ریفرنس دائر کیا جاتا ہے، تو سپریم جوڈیشل کونسل اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس کی سماعت کرے۔ تاہم جس جج کے خلاف یہ ریفرنس دائر ہو، وہ اس سماعت میں جج کے طور پر نہیں بیٹھ سکتا۔ تو اس ریفرنس میں چیف جسٹس جج کے طور پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘