1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چین اور جرمنی موجودہ ایرانی جوہری معاہدے کے ساتھ کھڑے ہیں‘

24 مئی 2018

جرمن چانسلر انگیلا میرکل سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ چانسلر بننے کے بعد چین کے گیارہویں دورے پر ہیں۔ اس دوران انہوں نے دو طرفہ تجارتی تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ ایرانی جوہری معاہدے کی حمایت بھی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2yHNA
China Peking - Angela Merkel bei treffen mit Xi Jinping
تصویر: picture alliance/AP Photo/J. Lee

جرمن چانسلر نے اپنے دورے کے پہلے دن چینی صدر شی جِن پنگ اور وزیراعظم لی کیچیانگ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں خاص طور پر عالمی سکیورٹی معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ تجارت اور ٹیکنالوجی میں دو طرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔

 چینی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد جرمن خاتون چانسلر نے اُس چینی حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کیا، جس کے تحت چین نے موٹر کاروں کی درآمد پر عائد محصولات میں کمی کی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ چین اور جرمنی کے درمیان تعاون کا عمل وسیع تر اور گہرائی کا حامل ہے اور ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔

جرمن چانسلر نے بیجنگ میں پریس کانفرنس کے دوران برلن اور بیجنگ کے تعلقات میں وسعت پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ صرف اسی صورت حال پر ہی اکتفا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کثیر الجہتی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی مارکیٹوں تک رسائی بھی اہم ہے۔

Merkel in China
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

میرکل نے چینی رہنماؤں سے کہا کہ وہ غیرملکی سرمایہ کاری کے راستے میں بھی حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرے۔ چینی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے خاص طور پر آزاد تجارت کی ضرورت پر زور دیا۔ میرکل نے چینی صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقاتیں دارالحکومت بیجنگ کے گریٹ ہال میں کیں۔

میرکل اور لی کیچیانگ نے ایرانی جوہری ڈیل کا دفاع بھی کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ چین اور جرمنی موجودہ ایرانی جوہری معاہدے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چینی وزیراعظم لی کیچیانگ نے پریس کانفرنس میں ایرانی جوہری ڈیل سے امریکی دستبرداری کے حوالے سے کہا کہ امریکی فیصلے سے خطے کے امن اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

 چینی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انگیلا میرکل نے کہا کہ ایرانی جوہری ڈیل کوئی مکمل معاہدہ نہیں تھا لیکن اس کے متبادل میں جو کچھ ہے وہ انتہائی بے یقینی ہے۔ دونوں لیڈروں نے امریکا اور شمالی کوریا سے بھی اپیل کی کہ وہ جزیرہ نما کوریا میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے رابطے اور مذاکراتی عمل میں تسلسل قائم رکھیں۔

ا ا / ع ح ( نیوز ایجنسیاں)