چین سے تنازعے میں فوجی کارروائی کوئی حل نہیں، تائیوانی صدر
20 جنوری 2017تائیوان کے دارالحکومت تائی پے سے جمعہ بیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر سائی اِنگ وین نے یہ بات دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو لکھے گئے اپنے اس خط میں کہی ہے، جس کی تفصیلات آج اس خاتون صدر کے دفتر کی طرف سے جاری کی گئیں۔
اس خط میں صدر سائی نے لکھا ہے، ’’تائیوان چین کے ساتھ اس لیے بھی امن کے ایک نئے دور کے آغاز کا خواہش مند ہے کہ کوئی بھی ممکنہ فوجی کارروائی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتی۔‘‘
صدارتی دفتر کے مطابق سائی اِنگ وین نے پوپ فرانسس کے نام اپنے خط میں لکھا ہے، ’’امن کا قیام باہمی سطح پر دوطرفہ موقف کے تبادلے اور کافی زیادہ خیرسگالی کا متقاضی ہے۔ خلیج تائیوان کے اطراف کے فریقین کے مابین اپنے سیاسی کیریئر کے دوران کئی سالہ مذاکراتی عمل سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ کوئی بھی فوجی ایکشن باہمی مسائل کے حل میں کسی بھی طرح معاون ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
چین تائیوان کو، جس کی حکمرانی پر بیجنگ کو کوئی اختیار نہیں ہے، اپنا ایک باغی صوبہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تائیوان کو چین کے کنٹرول میں لایا جانا چاہیے، چاہے اس کے لیے کوئی فوجی کارروائی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
چین اور تائیوان کے مابین تنازعے کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ واشنگٹن میں آج جمعے کو نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جو حلف برداری ہو رہی ہے، وہی تقریب ہزاروں میل دور چین اور تائیوان کے مابین نئی کشیدگی کی وجہ بھی بن چکی ہے۔
تائیوان نے حلف برداری کی اس تقریب میں اپنا ایک وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس پر چینی حکومت نے شدید اعتراض کیا۔ پھر بیجنگ نے اپنے طور پر بیانات اور سیاسی کوششوں کے ذریعے اس تائیوانی وفد کے واشنگٹن جانے کو رکوانے کی کاوش کی تو کل جمعرات انیس جنوری کے روز اسی وفد کے سربراہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ چین ایسی کوششیں اپنی ’تنگ نظری‘ کی وجہ سے کر رہا ہے۔
بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دو روز قبل کہا تھا کہ چین نے امریکا سے واضح طور پر درخواست کر دی ہے کہ تائیوان کے اس وفد کو دورہٴ امریکا سے روکا جائے۔