’چین عالمی طاقت بن جائے گا‘ اکثریتی عوامی رائے
15 جولائی 2011یہ انکشاف واشنگٹن میں جاری کی گئی ایک تازہ سروے رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس میں دنیا کے 22 ممالک کے شہریوں کی رائے لی گئی ہے۔ Pew Global Attitudes Project کے تحت مرتب کی گئی اس رپورٹ میں رواں سال مارچ تا مئی لگ بھگ 27 ہزار افراد نے اپنے خیالات ظاہر کیے۔
اس کے لیے شمالی امریکہ اور میکسیکو، جنوب میں برازیل، افریقہ میں کینیا، مغربی یورپ میں برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسپین سمیت آٹھ ممالک، وسطی اور مشرقی یورپ میں روس، یوکرائن ، پولینڈ اور لتھوانیا، گریٹر مشرق وسطیٰ میں لبنان، اسرائیل، اردن اور ترکی جبکہ ایشیا میں چین، بھارت، انڈونیشیا، جاپان اور پاکستان کے لوگوں کی رائے لی گئی۔
امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل نے پیو ریسرچ انسٹیٹوٹ کے سربراہ اینڈریو کوٹ Andrew Kohut کے حوالے سے لکھا ہے، ’’ گزشتہ دہائی میں امریکی طاقت سے متعلق خدشات اب اس کے تسلسل سے متعلق خدشات سے بدل گئے ہیں۔‘‘ کوٹ کے خیال میں امریکہ کے اندر اور بیرونی دنیا میں اس سوچ سے نمٹنا خاصا مشکل ہوگا۔
سروے کے مطابق لوگوں کی اکثریت اب بھی چین کے مقابلے میں امریکی بالادستی کے حق میں ہے۔ اس سوال کے بارے میں کہ کیا چین عسکری لحاظ سے بھی امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا، بہت کم لوگوں نے مثبت رائے دی۔ نمایاں اکثریت نے ایسی صورتحال پر عدم اعتماد بھی ظاہر کیا۔ سروے میں امریکی صدر باراک اوباما سے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے مغربی یورپ میں اپنی مقبولیت برقرار رکھی ہے۔ افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے متعلق البتہ اوباما کی پالیسیاں بہت زیادہ مقبولیت کی حامل نہیں۔
سروے میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ ترکی میں 49 اور پاکستان میں 92 فیصد رائے دہندگان اپنی حکومتوں سے خوش نہیں۔ اسی طرح ایران کے حوالے سے عالمی سطح پر غیر پسندیدگی بڑھی ہے تاہم محض پاکستان، انڈونیشیا اور روس میں رائے دہندگان کی اکثریت نے تہران کے لیے مثبت سوچ ظاہر کی۔
سروے میں شامل ممالک کی اکثریت میں عوام نے اقوام متحدہ کے حوالے سے مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا۔ چین، میکسیکو، اردن، اور پاکستان میں البتہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں عوامی سطح پر اقوام متحدہ کی حمایت میں کمی دیکھی گئی۔ سروے سے ظاہر ہوا کہ اگرچہ عالمی سطح پر اب بھی امریکہ چین سے زیادہ مقبول ہے مگر گزشتہ برسوں میں امریکہ کے مقابلے میں چین کی مقبولیت بڑھی ہے۔ جاپان میں امریکی مقبولیت ریکارڈ سطح تک بلند ہوئی ہے جبکہ پاکستان، ترکی، اردن اور کینیا میں امریکی مقبولیت گھٹی ہے۔
یاد رہے کہ چین نے گزشتہ سال ہی جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اب بھی اس کی مجموعی معیشت کا حجم، امریکی مجموی قومی پیداوار کے نصف کے برابر ہے۔ چینی معیشت کے رواں شرح نمو کو دیکھتے ہوئے اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ 2020ء تک چین امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کے قابل ہوسکتا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان