1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چین میں اکثر ایغور مسلمان رہا‘: بیجنگ کے دعوے کی تردید

عبدالستار، اسلام آباد
31 جولائی 2019

چین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اپنے ہاں نظریاتی تعلیمی مراکز (کیمپوں) میں رکھے گئے مسلمانوں میں سے اکثر کو رہا کر دیا ہے۔ تاہم پاکستانی تاجر، جہنوں نے چینی مسلم عورتوں سے شادیاں کر رکھی ہیں، اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3N5UJ
China Xinjiang Uiguren
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

چین کے شمال مشرقی صوبے سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ایغور بھی اس دعوے کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ چین نے دس لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو نظر بند کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، جسے چین نظریاتی تعلیمی ادارے کہتا ہے اور جہاں لائے جانے والے افراد کی نظریاتی طور پر ذہن سازی کی جاتی ہے۔ کچھ تنظیموں نے ایسے افراد کی تعداد تیس لاکھ سے بھی زائد بتائی ہے۔ ان کو اس طرح نظر بند کیے جانے پر چین کو شدید بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کے اس کے قریبی اتحادی ملک پاکستان نے بھی اس مسئلے کو کچھ عرصے پہلے بیجنگ کے ساتھ اس وقت اٹھایا جب پاکستانی تاجروں نے، جہنوں نے چینی مسلمان عورتوں سے شادیاں کی ہیں، وزارتِ خارجہ کے قریب مظاہرہ کیا اور وزارت کے حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی حکام نے اس بات کا انکشاف ایک پریس کانفرنس میں منگل کو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوے فیصد ایسے افراد کو چھوڑ دیا گیا ہے اور انہیں ان کی پسند کی نوکری بھی مل گئی ہے۔

تاہم پاکستانی تاجروں نے اس بات کاغلط قرار دیا ہے۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تاجر ابرار علی، جن کی چینی ایغور مسلمانوں میں رشتے داری ہے، اس بات کوجھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ ''میری اطلاعات کے مطابق تھوڑی بہت نرمی کی گئی ہے ۔ کچھ پاکستانی مردوں کی ایغور بیویوں کو چھوڑا گیا ہے لیکن لاکھوں کی تعداد میں ایغور ابھی بھی ان کیمپوں میں ہیں۔ میرے خیال میں ایسے افراد کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔ جن افراد کو رہا کیا ہے ان کو وہ کسی بھی وقت دوبارہ طلب کر لیتے ہیں۔ ان رہا کیے جانے والے افراد کی سخت نگرانی کی جارہی ہے اور خوف کا یہ عالم ہے کہ یہ ایک کال پر دوبارہ ان کیمپوں میں حاضر ہوجاتے ہیں جب کہ انہیں متعلقہ تھانوں میں بھی حاضری دینی پڑتی ہے۔ تو ایک لحاظ سے ان کی آزادی ابھی بھی بہت محدود نوعیت کی ہے۔‘‘

پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر، جنہوں نے نام نہ طاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کی، ابرار علی کی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔''یہ بات صیح ہے کہ انہوں نے پاکستانی مردوں کی ایغور بیویوں کو رہا کیا ہے لیکن یہ کہنا کہ لاکھوں ایغور افراد بھی رہا کر دیے گئے ہیں یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ یہاں تک کہ کچھ پاکستانی مردوں کی بیویاں اب بھی ان کی حراست میں ہیں۔‘‘

اس تاجر کا کہنا تھا،'' چینی حکام جمعے کے دن ایسے افراد کو نماز کے لیے لاتے ہیں۔ پھر ان کی تصاویر بنا لی جاتی ہیں اور دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ دیکھیں مسلمان بالکل آزاد ہیں۔ ایغور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد، جو لاکھوں میں ہے، اب بھی ان کیمپوں میں نظر بند ہیں اور اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔‘‘

چین ایغور حراستی مراکز بند کرے، ترکی

چین:ایغور مسلمانوں کے خلاف ’ظلم کا نیا الگورتھم‘

پاکستان میں دو ہزار کے قریب ایغور مسلمان رہتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد راولپنڈی بھی کئی دہائیوں سے بسی ہوئی ہے۔ ان میں سے بیشتر چین میں اشتراکی انقلاب کے بعد یہاں آگئے تھے اور زیادہ ترپاکستانی ثقافت میں ضم ہو گئے۔ تاہم یہ اب بھی شادیاں اپنی برادری میں ہی کرتے ہیں۔ ان کے اب بھی مراسم اور تعلقات اپنے آبائی علاقوں کے لوگوں سے ہیں۔ ایغور افراد کی ایک بڑی تعداد چائنہ مارکیٹ راولپنڈی میں کام کرتی ہے۔ اس مارکیٹ میں کام کرنے والے ایک تاجر عبدالطیف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کے اور اس کے جاننے والے افراد کے درجنوں رشتے دار اب بھی حراستی کیپموں میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ دنیا اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتی۔ یہ صرف پروپیگنڈے کے لیے ہے۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز اٹھتی ہے لیکن ایغور مسلمانوں کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔‘‘

پاکستانی مردوں، جنہوں نے ایغور مسلمان عورتوں سے شادیاں کیں ہیں، کی ایک بڑی تعداد کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے اس مسئلے پر اپنا نقطہ نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ زیادہ تر پاکستانی مردوں کی ایغور بیویوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ کچھ افراد کی بیویاں اب بھی نظر بند ہیں اور ان کی رہائی کے لیے بھی کوششیں جارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اس مسئلے پر پاکستانی اور چینی حکام سے رابطہ کیا تھا۔ ہم نے وزارتِ خارجہ کو بھی اس مسئلے سے آگاہ کیا اور ان کوششوں کی نتیجے میں زیادہ تر خواتین کو رہائی مل گئ تھی۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے رہائی پانے والی خواتین کے پاکستانی رشتے دار مردوں سے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس مسئلے پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔