’چین نے امریکا کے خلاف خاموش سرد جنگ شروع کر رکھی ہے‘
21 جولائی 2018امریکی ریاست کولوراڈو کے معتبر ایسپن سکیورٹی فورم کے دوسرے دن امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے کے ایسٹ ایشیا مشن سینٹر کے نائب سربراہ مائیکل کولنز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہ واضح ہے کہ بیجنگ حکومت کسی بھی صورت میں امریکا سے جنگ کی متمنی نہیں ہے لیکن موجودہ صدر شی جن پنگ کی حکومت مختلف انداز میں امریکا مخالف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
مائیکل کولنز کے مطابق یہ تمام خاموش سرگرمیاں ایک نئے انداز کی سرد جنگ ہیں اور اس کا مقصد چین کو امریکا کی جگہ پر عالمی طاقت تسلیم کروانا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سرگرمیاں روس کی کارروائیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کولنز کے مطابق روسی افعال کو امریکی میڈیا پر تشہیر زیادہ دی جاتی ہے اور اس باعث زیادہ آگہی ہے۔
مائیکل کولنز نے واضح کیا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ چین کی امریکا مخالف سرگرمیاں بنیادی طور پر ایک سرد جنگ ہے۔ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ نئی سرد جنگ ساٹھ کی دہائی میں شروع ہونے والی امریکا اور سابقہ سوویت یونین کی سرد جنگ کے دوران طے شدہ تعریف سے مختلف ہے۔
امریکی اہلکار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور چین محصولات کے نفاذ میں عمل اور ردعمل کی پالیسی کے تناظر میں تجارتی جنگ شروع کر چکے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ امریکا شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خاتمے میں چین کی مدد و معاونت کا طلب گار ہے۔
مائیکل کولنز نے بحیرہ مشرقی چین کے تنازعے کو مشرق بعید کا ’کریمیا‘ قرار دیا۔ کولنز کے مطابق بحیرہ جنوبی چین پر چین کا ملکیتی دعویٰ کریمیا کے روس میں ادغام کی طرح ہے۔ اسی فورم میں امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ نے امریکا کو درپیش خطرات اور چیلنجز پر بھی اظہارِ خیال کیا۔
ایسپن سکیورٹی فورم میں امریکا کو درپیش سلامتی و اقتصادی مسائل و مشکلات پر فوکس کیا جاتا ہے۔ اس میں امریکی حکومتی اہلکاروں کے علاوہ صحافی، دانشور اور مختلف امور کے ماہرین شریک ہو کر اختلافی و نزاعی امریکی معاملات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق ایسپن سکیورٹی فورم میں پیش کی جانے والی تجاویزات امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی سامنے رکھی جاتی ہیں۔