چینی مدد سے چشمہ میں ایٹمی ری ایکٹر: بین الاقوامی تشویش
24 مارچ 2011چینی حکومت، جس کے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ ہی بہت دوستانہ رہے ہیں، اس پاکستانی ایٹمی بجلی گھر میں توسیع کے پروگرام کے تحت وہاں ایک نیا ری ایکٹر قائم کرنے میں پاکستان کی مدد کرے گی۔
پاکستانی صوبہ پنجاب میں چشمہ کے مقام پر اس ایٹمی پاور پلانٹ میں ایک نیا ری ایکٹر تعمیر کرنے کے چینی منصوبے پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے جاپان میں آنے والے شدید زلزلے سے بھی کافی عرصہ پہلے سے بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ فوکوشیما کے جاپانی پاور پلانٹ کے متعدد ری ایکٹروں میں انتہائی طاقتور زلزلے اور پھر تباہ کن سونامی لہروں کے بعد، جو حادثات پیش آئے، ان کی روشنی میں ایٹمی شعبے میں اسلام آباد کے لیے بیجنگ کی طرف سے مدد کے منصوبے اور بھی تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔
اس لیے کہ فوکوشیما کے جاپانی ری ایکٹروں میں بھی 70 کے عشرے کی نیو کلیئر ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی اور اب چین چشمہ کے ایٹمی بجلی گھر میں جو نیا ری ایکٹر تعمیر کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے، اس میں بھی قریب چار دہائیاں پرانی یہی ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جائے گی۔
جہاں تک پاکستان میں اس نئے ایٹمی ری ایکٹر کی آئندہ تعمیر کا سوال ہے تو بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے خدشات اور تحفظات کے باوجود ابھی تک نہ تو بیجنگ اور نہ ہی اسلام آباد اپنے ارادوں میں کسی تبدیلی پر آمادہ ہیں۔
چینی حکومت کا پاکستان کے ساتھ ایٹمی شعبے میں اشتراک عمل واشنگٹن، نئی دہلی اور کئی دیگر دارالحکومتوں میں تشویش کا سبب اس لیے بھی بنا ہے کہ اس سلسلے میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق پاکستان کے ریکارڈ، اس ملک میں داخلی عدم استحکام اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق بین الاقوامی قوانین میں ان ممکنہ خامیوں کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے، جنہیں کوئی بھی ملک اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
چین ابھی تک چشمہ کے ایٹمی بجلی گھر میں ایک نیا ری ایکٹر تعمیر کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے مگر اصل منصوبے کے مطابق بیجنگ کو وہاں دو نئے ری ایکٹر تعمیر کرنا ہیں، جنہیں چشمہ پاور پلانٹ کے تیسرے اور چوتھے یونٹوں کا نام دیا جاتا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان ایٹمی شعبے میں تعاون پر بڑے قریب سے نظر رکھنے والے بین الاقوامی امن کے لیے کارنیگی اینڈاؤمنٹ نامی ادارےکے ایٹمی پالیسی کے معروف ماہر مارک ہِبس کہتے ہیں کہ چشمہ کی ایٹمی تنصیبات میں تیسرے اور چوتھے یونٹ کا ڈیزائن کئی عشروں پرانا ہے اور اسی وجہ سے اس منصوبے کے حوالے سے تشویش کی بڑی وجہ سلامتی کے معاملات ہیں۔
مارک ہِبس نے، جو جرمن دارالحکومت برلن میں مقیم ہیں اور جنہوں نے اسی ہفتے ایک بار پھر پاکستان کا دورہ بھی کیا، خبر ایجنسی روئٹرز کے ساتھ ایک ٹیلی فون انٹرویو میں کہا، ’’نئے ایٹمی ری ایکٹروں کے ڈیزائن سے متعلق ملکیتی حقوق اور ایٹمی شعبے میں برآمدات پر پابندیوں سے متعلق قوانین کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹوں کے پیش نظر چین پاکستان کو کسی جدید تر ایٹمی ری ایکٹر کا ڈیزائن یا اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی فروخت نہیں کر سکتا۔ اس پس منظر میں بیجنگ اگر آج ہی اسلام آباد کی مدد کرتے ہوئے چشمہ میں ایک نیا ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کرتا ہے، تو وہ لازمی طور پر اسی پرانے ڈیزائن کا ہو گا اور یہی بات اس دوطرفہ تعاون پر بین الاقوامی تشویش کی وجہ بھی ہے۔
اس تشویش کے باوجود پاکستان میں ایٹمی توانائی کے کمیشن کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کسی خدشے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ PAEC کے ترجمان نے کہا، ’’ان پلانٹس کے محفوظ آپریشن کے حوالے سے کسی تشویش کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ایٹمی توانائی کے شعبے میں جاپان میں پیش آنے والے حادثات سے جو بھی سبق سیکھے گئے، ان کا پاکستانی ایٹمی ری ایکٹروں میں بھی پورا خیال رکھا جائے گا۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق