1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈالر کی قدر میں اضافہ، پاکستانی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
20 مارچ 2018

پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ’حیران کن اضافہ‘ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں مہنگائی کا ایک ’طوفان‘ آئے گا جب کہ پاکستان کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

https://p.dw.com/p/2udsY
Pakistan Währung Wechsel Dollar Rupien Geldscheine
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam

آج انٹر بینک میں ڈالر کا ریٹ تقریباﹰ ایک سو پندرہ روپے سے زائد رہا جب کہ اوپن مارکیٹ میں یہ ریٹ ایک سو تیرہ روپے پچاس پیسے کے قریب تھا۔ حالیہ چند برسوں کے دوران  ڈالر کی قدر میں یہ بلند ترین اضافہ ہے۔ اسلا م آباد میں ایک فارن کرنسی ڈیلر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ڈالرز کی ڈیمانڈ میں اچانک اضافہ ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی قدر بھی بڑھ گئی ہے۔ ابھی آثار ایسے نظر آرہے ہیں کہ اس کی قدر میں اضافہ نہ صرف یہ کہ بر قرار رہے گا بلکہ اس میں مزید بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیرِ خزانہ سلمان شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم تیل، ایل این جی، کھانے کی اشیاء، زرعی اشیاء، کوکنگ آئل سمیت کئی چیزیں درآمد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی پیک کے پروجیکٹس کے حوالے سے مشینریاں بھی درآمد کی جارہی ہیں۔ اس وجہ سے ڈالر کی قدر میں اضافہ قدرتی تھا۔ اگر ہم نے اپنے امپورٹ بل کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی، برآمدات کو نہیں بڑھایا، پیداواری لاگت کو کم کر کے ایکسپورٹ کے لئے اپنی مصنوعات کو عالمی منڈی میں مزید مسابقانہ نہیں بنایا اور بنیادی معاشی اصلاحات نہیں کیں، تو صورتِ حال ایسی ہی رہے گی۔‘‘

روپے کی قدر میں کمی، غیر ملکی سرمایہ کاری کا نادر موقع
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس قدر میں اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے قرضوں کا حجم مزید بڑھے گا اور سی پیک کے جو پروجیکٹس چل رہے ہیں، وہ بھی مزید مہنگے ہو جائیں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ چینی سرمایہ کاری ملک میں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے ہماری برآمدات بڑھ سکتی ہیں، ’’چین اگر اپنی صنعتیں یہاں منتقل کرتا ہے اور ہمارے سرمایہ کار اپنی مسابقانہ صلاحیت بڑھاتے ہیں اور اگر ہم زیادہ مصنوعات ایکسپورٹ کرتے ہیں تو یقیناً اس سے ہم کو فائدہ ہوگا اور ہمارا تجارتی خسارہ کم ہوگا، جس سے ہماری کرنسی بھی مضبوط ہو سکتی ہے۔‘‘
معروف ماہرِمعیشت ڈاکڑ شاہدہ وزارت کے خیال میں آج اس قدر اضافہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی تابعداری کا نتیجہ ہے،’’مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو ملک کے معاشی امور چلاتے ہیں، وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ وہ ملک کے مفاد میں کم اور ان اداروں کے مفاد میں زیادہ سوچتے ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتے ہیں، جس سے ملک کو نقصان ہو اور ان اداروں کا فائدہ ہو۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے یا ڈالر کی قدر بڑھ جانے سے ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا، یہ بالکل ایک غلط تصور ہے۔ ہم نوے کی دہائی سے دیکھ رہے ہیں کہ اس دلیل میں کوئی جان نہیں ہے لیکن ہر مرتبہ ہمیں یہی بتایا جاتا ہے۔ اس طرح جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو ہماری درآمدات مہنگی ہوجاتی ہیں، جس سے ہمیں اچھا خاصا معاشی نقصان ہوتا ہے۔‘‘
اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیں غیر ضروری امپورٹ پر فی الحال پابندی لگا دینی چاہیے۔ مثال کے طور پر مالی سال دو ہزار سولہ، سترہ (جولائی مارچ)کے دوران تقریبا تین اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز کار اور دوسرے لگژری آئیٹمز کی امپورٹ پر خرچ ہوئے۔ ہمیں ایسی امپورٹ پر وقتی طور پابندی لگانی چاہیے اور صرف انتہائی ضروری امپورٹس، جیساکہ سی پیک کے لئے مشینری ہیں، کرنی چاہیے۔ آپ دیکھیں کہ جب دو ہزار آٹھ میں سرمایہ دار  ممالک میں بحران آیا تو انہوں نے فری مارکیٹ اور آزاد تجارت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کئی اداروں اور بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا۔ تو ہم بھی وقتی طور پر ایسا کر سکتے ہیں۔ اور آئندہ ایسی پالیسیاں بنائیں، جو ملکی معیشت اور ملک کے لئے بہتر ہوں نہ کہ کچھ مالیاتی اداروں کے لئے۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا نے اس صورتِ حال کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آئی ایم ایف کے مطابق بیرونی ادائیگیوں کے بعد ہمارے فارن ریزرو صرف سات سو چوبیس ملین ڈالر رہے جائیں گے۔ اسحاق ڈار نے مصنوعی طور پر ڈالر کے ریٹ کو کم رکھا۔ حکومت نے ایسے اقدامات کئے جن سے ہماری امپورٹ بڑھی، تو ڈالر کی قدر میں اضافہ فطری تھا۔ اب اس سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا اور ن لیگ کے لئے اگلے انتخابات میں سیاسی مشکلات پیدا ہوں گی۔‘‘