ڈربن میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز
28 نومبر 2011دو سال پہلے کوپن ہیگن میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ چرچا سننے میں آیا تھا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ماحول کا موضوع کافی حد تک پس منظر میں چلا گیا ہے۔
جنوبی افریقہ کی اس ماحولیاتی کانفرنس میں کیوٹو پروٹوکو ل کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ 1997ء میں جاپان کے شہر کیوٹو میں منظور کی جانے والی یہ دستاویز آج کے دن تک بین الاقوامی سطح پر واحد ایسا باقاعدہ معاہدہ ہے، جو مختلف ممالک کو ماحول کے لیے ضرر رساں کاربن گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بچت کے ٹھوس اہداف کا پابند کرتا ہے۔ تاہم یہ اہداف صرف صنعتی ملکوں کے لیے اور محض 2008ء اور 2012ء کے درمیانی عرصے کے لیے ہیں۔ اس عرصے کے بعد کے لیے ابھی کوئی اہداف مقرر نہیں کیے گئے۔
یورپی یونین ہی نہیں بلکہ ترقی کی دہلیز پر کھڑے چین، برازیل اور جنو بی افریقہ جیسے ممالک بھی اس دستاویز کی مدت میں توسیع کی وکالت کر رہے ہیں۔ جاپان، کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک کا اصرار البتہ یہ ہے کہ کیوٹو پروٹوکول کی جگہ ایک ایسا جامع ماحولیاتی سمجھوتہ طے پانا چاہیے، جس میں ترقی کی دہلیز پر کھڑے ملکوں کو بھی ماحولیاتی اہداف کا پابند بنایا گیا ہو۔
ماحولیاتی تنظیم جرمن واچ کے نمائندے سوین ہارمیلنگ کے مطابق فضا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کرہ ارض کے جنوب میں واقع ملکوں کو بھی ماحول کے تحفظ کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ سرگرم کرنے کی ضرورت ہے:’’ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ پندرہ سال پہلے کے مقابلے میں، جب یہ کیوٹو دستاویز منظور ہوئی تھی، آج کل ہم ایک اور دُنیا میں رہ رہے ہیں۔ آج کل ترقی کی دہلیز پر کھڑے ممالک میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی مقدار زیادہ ہے اور مستقبل قریب میں ان گیسوں کا زیادہ اخراج ترقی پذیر ممالک میں ہی دیکھنے میں آئے گا۔ ایسے میں جاپان اور امریکہ جیسے ملکوں کا مؤقف یہ ہے کہ وہ محض کسی ایسے سمجھوتے پر رضامند ہوں گے، جس میں ترقی کی دہلیز پر کھڑے ملکوں کو بھی یکساں طور پر پابند کیا جائے۔‘‘
دو سال پہلے کوپن ہیگن میں جمع 120 سے زیادہ ملکوں کے سربراہان کسی ٹھوس نتیجے پر متفق ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اور تب سے ہی تحفظ ماحول کے بہت سے علمبرداروں کو اس بارے میں شک و شبہ ہے کہ اس شعبے میں کوئی کامیاب پیشرفت ہو سکے گی۔
ڈربن میں زیر بحث ایک بڑے موضوع کا تعلق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے سلسلے میں غریب ملکوں کو مالی وسائل کی فراہمی کے طریقہء کار سے ہے۔ مثلاً بنگلہ دیش پشتے تعمیر کر رہا ہے تاکہ سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کے نتیجے میں زیرِ آب آنے سے بچ سکے۔ ایک بڑی پیشرفت یہ ہے کہ ایسے ترقی پذیر ملکوں کو سن 2020ء کے بعد سے سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق ہو چکا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے متاثرہ براعظم افریقہ ہے۔ کرسچین ایڈ سے وابستہ محمد آدو جیسے افریقی نمائندوں کو امید ہے کہ ڈربن کانفرنس میں افریقہ کے مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی:’’بارشیں بھی نہیں ہوئیں اور فصلوں کی پیداوار بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے بھوکے اور پیاسے انسان دیکھے ہیں، جنہوں نے پیدل طویل فاصلے طے کیے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ایسے انسانوں کی کہانیوں کی بھرمار ہے، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا ہے۔ اگر اب بھی ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کا ادراک نہیں ہو پایا تو آخر ہمیں انتظار کس چیز کا ہے؟ کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے؟‘‘
محققین خبردار کر رہے ہیں کہ مذاکرات میں پیشرفت ہو نہ ہو، موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل جاری ہے اور کوئی ٹھوس اقدامات نہ ہونے کی صورت میں ابھی مدتوں جاری رہے گا۔
رپورٹ: یوہانیس بیک / امجد علی
ادارت: حماد کیانی