1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈریسڈن پر بمباری: ستر برس بعد متاثرین کے لیے تازہ

کشور مصطفیٰ13 فروری 2015

ٹھیک 70 سال قبل جرمنی کا شہر ڈریسڈن سوویت فوج اور مغربی اتحادی فورسز دونوں کی طرف سے دو مختلف سمتوں سے ہونے والے حملوں اور بمباری میں نیست و نابود ہو کر رہ گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1EbLp
تصویر: picture-alliance/dpa

مشرق کی طرف سے جرمنی پر سوویت فوجیوں کی چڑھائی اور مغرب سے الائیڈ فورسز کی اندھا دھند بمباری میں لاکھوں شہری لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ڈریسڈن پر بمباری اُس وقت کی گئی تھی جب جرمنی دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بہت قریب پہنچ چُکا تھا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے اس بمباری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

1945ء میں تیرہ اور پندرہ فروری کے درمیان برطانیہ اور امریکا کی طرف سے ڈریسڈن پر ہونے والی بمباری میں ہلاک ہونے والے جرمن باشندوں کی اصل تعداد متنازعہ ہے۔ اُس وقت کی نازی پروپیگنڈا مشینری کے مطابق اتحادی فورسز کی بمباری میں 200,000 کے قریب جرمن ہلاک ہوئے تھے جبکہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد چند ریسرچرز کے اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے کی تعداد 135,000 تھی۔ بعد ازاں نیو نازیوں نے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ کرنا شروع کر دیا اور وہ اس ’ بمباری ہولوکوسٹ‘ میں ہلاک ہونے والے جرمنوں کی تعداد پانچ لاکھ سے ایک ملین کے درمیان بتانے لگے ۔ اس پر شہر ڈریسڈن کی انتظامیہ نے ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا اور اس کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دوسری عالمی جنگ میں جرمن شہر ڈرسڈن پر اتحادی فورسز کی بمباری میں ہلاک ہونے والے جرمن شہریوں کی اصل تعداد کا اندازہ لگائے۔ یہ اہم کام 2008 ء میں مکمل ہوا اور اس کمیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد 25 ہزار کے قریب بتائی گئی۔

Bildergalerie Zweiter Weltkrieg - Gründung der EU
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی کے بہت سے شہر کھنڈر بن گئے تھےتصویر: AFP/Getty Images

ڈریسڈن دریائے ایلبے پر واقع ایک انتہائی خوبصورت اور رومانوی جرمن شہر ہے جس کی ہزاروں عمارتیں دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کے حملوں کے نتیجے میں زمین بوس ہوگئی تھیں اور یہ شہر کھنڈرات اور ملبے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا جن میں ڈریسڈن کا مشہور زمانہ اوپرا ہاؤس اور تاریخی قدیم شہری علاقے میں قائم عجائب گھر بھی شامل ہے۔ ڈریسڈن کا ’ Our lady ‘ چرچ جو باروک طرز تعمیر کا ایک شاہکار مانا جاتا ہے ابتدائی طور پر محفوظ نظر آ رہا تھا، تاہم شدید بمباری کے سبب زمین میں پیدا ہونے والی حدت کی وجہ سے چرچ کی عمارت دو روز کے اندر اندر کمزور ہو کر اپنے ہے وزن تلے دھنس گئی۔

Dresden Gedenken Zweiter Weltkrieg Bombenangriffe
ڈریسڈن میں ہر سال اُن تاریخی واقعات کی یاد میں ہزاروں باشندے جمع ہوتے ہیںتصویر: AP

جرمن صوبے سکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن پر بمباری کے اتحادی فورسز کے فیصلے کو ایک امریکی مصنف Kurt Vonnegut کے مشہور ناول " Slaughter House Five" نے امر کر دیا ہے۔ یہ ناول ایک عرصے تک متنازعہ بنا رہا۔ اس وقت اتحادی فورسز کی خواہش یہ تھی کہ نازیوں کو وہ تکلیف پہنچائی جائے جسے وہ سب سے زیادہ محسوس کر سکیں اور پسپا ہو جائیں۔ چند تاریخ دانوں کا تاہم ماننا ہے کہ اتنی بڑی تباہی دراصل انسانی اور ثقافتی ورثے کی لاحاصل بربادی کے سوا کچھ نہیں جس کا جنگ کے نتائج پر نہ ہونے کے برابر اثر ہوا۔