ڈوکلام سے بھارتی افواج کا انخلا شروع، چین مطمئن
28 اگست 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان ڈوکلام کے متنازعہ سرحدی علاقے سے افواج کے فوری انخلا پر متفق ہو گئے ہیں۔ چین نے اس بھارتی بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب BRICS اقوام کا گروپ چین میں ملاقات کرنے والا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی متوقع طور پر اس سمٹ میں شریک ہوں گے۔
کسی بھی خطرے سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کر سکتے ہیں، مودی
چین کا بھارت مخالف بیانیہ یا ’طبل جنگ‘
بھارت کسی زعم میں نہ رہے، سرحد کا دفاع کرنا جانتے ہیں، چین
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے اٹھائیس اگست بروز پیر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران چین اور بھارت نے سفارتی رابطے میں اضافہ کیا تھا تاکہ ڈوکلام میں سرحدی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ ہمالیہ میں یہ علاقہ بھارت، چین اور بھوٹان کی سرحدوں سے ملتا ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سرحدی کشیدگی کے فوری خاتمے کی خاطر تمام تر ضروری اقدامات اٹھائیں جائیں گے۔
اس کشیدگی کے حوالے سے چین کا موقف تھا کہ بھارتی فوجی دستے مبینہ طور پر اس کے ریاستی علاقے میں داخل ہوئے۔ بیجنگ حکومت کے اس دعوے کے برعکس بھارت اور بھوٹان کا کہنا تھا کہ چین جس ’متنازعہ‘ علاقے کی بات کر رہا ہے، وہ دراصل بھوٹان کا ریاستی علاقہ ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارت نے بھوٹان میں اپنے فوجی بھی تعینات کر رکھے ہیں۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کے فوجی دستے چینی فوج کے اس یونٹ کے قریب پہنچ گئے تھے، جس نے 16 جون کو ہمالیہ کی ریاست بھوٹان میں ڈوکلام کے علاقے میں داخل ہو کر وہاں ایک سڑک تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس تعمیراتی منصوبے کے باعث بھارت اور چین کے مابین کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ بیجنگ حکومت نے کہا تھا کہ اس تنازعے کے خاتمے کے لیے پہلے بھارتی افواج کا انخلا ہونا چاہیے۔
دوسری طرف چینی حکومت نے ڈوکلام میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی بھارتی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پیشرفت سے مطمئن ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کر دی ہے کہ بھارت اس سرحدی علاقے اپنی افواج اور فوجی سازوسامان کو واپس لے جا رہا ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تاہم چینی افواج ملکی سرحدوں پر ان تمام معاملات کی غور سے نگرانی بھی کر رہی ہیں۔