1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیجیٹل نیشن کا قانون، خدشات کیا ہیں؟

عثمان چیمہ
17 دسمبر 2024

پاکستانی حکومت ڈیجیٹل نیشن پاکستان کے نام سے ایک قانون متعارف کروانا چاہتی ہے، جس کے تحت شہریوں کو ڈیٹا ایک پلیٹ فارم پر ڈیجیٹلائز ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4oGwy
پاکستانی پارلیمان کی عمارت
حکومت شہریوں کا تمام ڈیٹا ایک پلیٹ فارم پر چاہتی ہےتصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

پاکستانی حکومت کی جانب سے شہریوں کا ڈیٹا ایک پلیٹ فارم پر ڈیجیٹلائز کرنے کے قانونی مسودے کے تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو شہریوں کے ڈیٹا کی ڈیجیٹلائزیشن کے دوران انتہائی محتاط رہنا ہوگا کیونکہ اس اقدام سے عوام کے ڈیٹا کی رازداری کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

حکومت نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2024 پارلیمان میں پیش کیا ہے۔ اس بل کا مقصد شہریوں کا ڈیٹا ایک پلیٹ فارم پر ڈیجیٹلائز کرنا ہے، جس میں صحت کے ریکارڈز، زمین اور جائیداد کا ریکارڈ، پیدائشی سرٹیفکیٹ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کاروباری معلومات شامل ہیں۔

بل میں نیشنل ڈیجیٹل کمیشن کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جس کی سربراہی وزیراعظم کریں گے۔ یہ کمیشن پالیسیاں بنائے گا، گورننس فراہم کرے گا اور وفاقی، صوبائی اور مختلف شعبوں کے اداروں کے درمیان رابطے کو یقینی بنائے گا۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، اسٹیٹ بینک اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہان بھی  اس کمیشن کے ممبرز ہوں گے۔

مزید یہ کہ بل میں پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو نیشنل ڈیجیٹل ماسٹر پلان کی تیاری، اس پر عمل درآمد کی نگرانی اور اور وقتاً فوقتاً اسے اپ ڈیٹ کرے گی ۔

صوبے بھی اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں؟

اٹھارہویں ترمیم کے بعد چونکہ کچھ معاملات صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اس لیے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ نیشنل ڈیجیٹل کمیشن کی بنائی گئی پالیسیوں کا صوبوں میں نفاذ کیسے ممکن ہوگا۔

پاکستانی پارلیمان کی عمارت کا مرکزی دروازہ
حکومت ڈیجٹلائزیشن سے متعلق قانون سازی چاہتی ہےتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

ماضی میں دبئی ڈیجیٹل اتھارٹی کے ڈائریکٹر کے بہ طور خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر سہیل منیر اس منصوبے کے ڈیزائن میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان عالمی ای گورننس رینکنگ میں 136ویں نمبر پر ہے۔ ''ملک میں ای گورننس کو  یقینی بنانے کے لیے ایک سپرا منسٹریل باڈی کی ضرورت تھی۔ چیلنج یہ تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت، تعلیم اور پولیس جیسے مختلف شعبے صوبوں کے دائرے میں آ گئے ہیں، اسی لیے تمام وزرائے اعلیٰ کو نیشنل ڈیجیٹل کمیشن کا ممبر بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح جب کوئی پالیسی حتمی ہوگی، تو وہ صوبوں میں بھی نافذ ہوگی۔‘‘

ڈاکٹر سہیل نے دعویٰ کیا کہ عوامی ڈیٹا کیسکیورٹی اور رازداری کو یقینی بنانے کے لیے تین تہہ بنائی جائیں گی۔ ان کے مطابق''کسی فرد کی مالی ادائیگیوں کے معاملے میں ایک ریئل ٹائم پےمنٹ لیئر، بینکوں اور ایف بی آر کے درمیان ڈیٹا ایکسچینج لیئر اور ایک کنسینٹ لیئر ہوگی اور شہری کی رضامندی کے بغیر ڈیٹا شیئر نہیں کیا جائے گا۔‘‘

ماہرین کا ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کے حوالے سے مختلف موقف ہے۔ کچھ اسے مثبت اقدام قرار دیتے ہیں جبکہ دوسروں کے مطابق اس سے شہری ڈیٹا کی رازداری متاثر ہو سکتی ہے اور انٹیلیجنس ایجنسیاں بھی شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیں گی، چاہے وہ اپنی تفصیلات فراہم کرنے پر رضامند ہوں یا نہ ہوں۔

لبرل ڈیموکریسی کیا ہے؟

پاکستان سافٹ ویئر ایسوسی ایشن فار آئی ٹی کے چیئرمین سجاد مصطفی سید کا کہنا ہے اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو یہ ایک  اچھا اقدام ہے۔ فی الحال کسی فرد کے مالیاتی تفصیلات شناختی کارڈ کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتیں، لیکن یہ بل بینک اکاؤنٹس، جائیدادوں اور آن لائن بزنس پورٹلز سمیت تمام لین دین کو ڈیجیٹلائز کرنے کی تجویز دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں حکومت کے ہر اقدام کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب حکومت یا ایجنسیاں کسی سیاسی یا نظریاتی اختلاف رکھنے والے فرد کو دبانے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو کسی کی
 رضامندی کی پرواہ
نہیں کی جاتی۔

ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ اسامہ خلجی نے کہا ، ''ڈیٹا کو انٹیلیجنس ایجنسیاں شہریوں پر سخت کنٹرول کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ حکومت تمام ڈیٹا کو ایک جگہ رکھنا چاہتی ہے جبکہ ملک میں ابھی تک کوئی ڈیٹا پروٹیکشن قانون موجود نہیں۔ کوئی بھی اپنی طبی تاریخ یا سرگرمیاں اپنی رضامندی کے بغیر شیئر نہیں کرنا چاہتا۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ عام شہریوں کی معلومات لیک ہو سکتی ہیں۔‘‘