بھارتی جمہوریت میں دس پوائنٹ کی کمی
23 جنوری 2020ڈیموکریسی انڈیکس 2019ء میں بھارت کا مجموعی اسکور 6.90 رہا جبکہ سن 2018 میں 7.23 تھا۔ ڈیموکریٹکس انڈیکس کے آغاز سے بھارت کا یہ اب تک کا بدترین سکور ہے۔ اس فہرست میں 9.87 پوائنٹ کے ساتھ ناروے اول نمبر پر ہے۔
سن 2006 میں برطانوی جریدے 'دی اکنومسٹ' گروپ کے تجزیاتی و تحقیقاتی ڈویژن 'اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ' کی جانب سے ہر سال عالمی سطح پر جمہوری اقدار اور اس کی حیثیت کی درجہ بندی کے مقصد سے 'ڈیموکریسی انڈیکس' جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت صفر سے دس تک کے پیمانے پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔
ڈیموکریسی انڈیکس کے بارویں ایڈیشن میں بھارتی جمہوریت کی حیثیت میں گراوٹ کی بنیادی وجہ شہریوں کی آزادی میں درج کی گئی کمی بتائی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ''بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر سے متعلق دو اہم آئینی دفعات ختم کرتے ہوئے اس کا خصوصی مقام ختم کر دیا اور ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا۔ اس فیصلے سے قبل حکومت نے وہاں بڑی تعداد میں فوج کو تعینات کیا، بہت سی پابندیاں اور قدغنیں عائد کیں، مقامی سیاسی رہنماؤں کو نظربند کر دیا گيا اور پورے خطے میں انٹرنیٹ پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔''
اس رپورٹ میں متنازع نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کا بھی خصوصی ذکر کیا گيا ہے۔ ڈیموکریسی انڈیکس رپورٹ کے مطابق ''ریاست آسام میں این آر سی کے نفاذ کے بعد جن انیس لاکھ افراد کو حتمی فہرست سے باہر رکھا گيا ہے اس میں بڑی تعداد میں مسلمان شامل ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کی وجہ سے بھی مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی میں میں اضافہ ہوا ہے اور ملک کے کئی بڑے شہروں میں اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے جا رہے ہیں۔''
ریاست بنگال کی حکمران جماعت ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان ڈریک او برائن کا کہنا ہے کہ بھارت کی جمہوری حیثیت میں یہ کمی حکومت کی پالیسیوں کے سبب ہوئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ملک میں زہر پھیلا رہے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ جیسے ممتاز ادارے کو بھی تباہ کرنے کے موڈ میں ہیں۔ کسی بھی مختلف رائے کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ حکومت طلبا کی آواز دبا رہی ہے، نظریہ بھارت کو ختم کیا جارہا ہے۔ طلباء اور نوجوان ناراض ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت شدید مشکلات سے دوچار ہوجاتی ہے۔''
حکمران جماعت بی جے پی کشمیر سے متعلق حکومتی اقدامات کا دفاع کرتی رہی ہے۔ پارٹی کے رہنما سیانتن باسو اس رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں، ''مغربی ممالک کی بعض تنظیمیں اس طرح کا جائزہ لیتی رہتی ہیں جس کی شفافیت پر سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں۔ کشمیر کی وجہ سے اس رپورٹ میں اسکور کم کیا گيا ہے۔ کشمیر کا معاملہ رپورٹ میں آنا ایک شرمناک بات ہے، حکومت نے تو کشمیر میں حالات بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں جس سے صورتحال مستقل بہتر ہورہی ہے۔''
گزشتہ برس بھارت میں کئی اہم شخصیات کے فون ٹیپ کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا اور اس کا الزام بھی حکومتی ایجنسیوں پر عائد کیا گیا تھا۔ کئی حلقوں نے اس پر اہم سوالات کیے تھے۔
سرکردہ صحافی اور پیپلز یونین برائے جمہوری حقوق سے وابستہ آشیش گپتا کہتے ہیں اگر حکومت کا موجودہ رویہ برقرار رہا تو بھارت کی جمہوری حیثیت میں مزید گرواٹ آسکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''حکومتیں تو پہلے بھی تحریکوں پر ظلم کرتی تھیں، لاٹھی اور گولیوں کا استعمال بھی ہوتا رہا لیکن پھر کچھ مطالبات تسلیم کر لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات حکومت اپنے فیصلے بھی منسوخ کردیتی تھیں لیکن موجودہ حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں، وہ اپنے ہر فیصلے پر مصر ہے۔ لہذا وہ اپنے خلاف تمام تحریکوں کو دبانا چاہتی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں بھارتی انڈیکس مزید خراب ہوگی۔''