1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل اور اسلام آباد کے تعلقات: کیا تلخی بڑھے گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
19 جولائی 2021

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں تناؤ بدستورجاری ہے اور اسلام آباد نے اپنے سفیر کو مشورے کے لئے واپس طلب کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3whN5
Chaman Pakistanisch-afghanische Grenze geschlossen
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS.com

 مبصرین کا خیال ہے کہ پاک افغان تعلقات آنے والے دنوں میں مزید نا خواشگوار ہوں گے۔  کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان ملکوں کے تعلقات میں خوشگواری کبھی نہیں رہی۔ تاہم موجودہ تعلقات میں تلخی کچھ دنوں پہلے اس وقت آئی جب افغان صدر اشرف غنی نے ازبکستان میں پاکستان مخالف بیان دیا اور پاکستانی وزیر اعظم نے اسے حقائق کے خلاف قرار دیا۔ افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا والے واقعے سے ان تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہوئی ہے۔

افغانستان کا سفارتی عملے کو واپس بلانے کا فیصلہ مایوس کن، پاکستان

تباہ کن خارجہ پالیسی

افغانستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والی اے این پی کی سابق رہنما اور رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "افغانستان سے عوامی سطح پر تعلقات رکھنے کے بجائے پاکستان طالبان کی حمایت کرتا ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں بداعتمادی کی فضا پیدا ہے۔ اسلام آباد افغان مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہے۔‘‘

اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا اور رہائی

بشریٰ گوہر کا مزید کہنا تھا کہ "اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور افغان پالیسی پر بحث کرے اور جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کی اصلاح کرکے پالیسی کا از سر نو جائزہ لے اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان میں لگنے والی آگ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘

Pakistan Grenzzwischenfall bei Quetta
کچھ عرصہ قبل پاکستان اور افغانستان کی فوجوں میں فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھاتصویر: DW/A. Ghani Kakar

تعلقات میں مزید تناؤ کا خدشہ

کچھ ناقدین کا کہنا ہے جب تک افغانستان میں جنگ چلتی رہے گی ان تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے بلکہ ان تعلقات میں مزید ابتری آ سکتی ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کو افغانستان کی شکایات ہمدردی سے سننی چاہیے اور الزامات کا معقول جواب دینا چاہیے۔ "مثال کے طور پر اگر کابل کا یہ الزام ہے کہ دس ہزار دہشت گردوں کو پاکستان نے تربیت دے کر افغانستان بھیجا ہے۔ اگر حقائق ایسے نہیں ہیں، تو پاکستان کو کوئی ایسا جواب دینا چاہیے جو معقول ہو۔ بالکل اسی طرح افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کے حوالے سے بھی معقول جواب دیا جانا چاہیے۔  بعض اوقات اسلام آباد کی طرف سے  جو جواب آتا ہے وہ جلتی پہ تیل کا کام کر دیتا ہے اور تعلقات کو بہتر کرنے کے بجائے مزید بگاڑ دیتا ہے۔‘‘

پاکستان: افغان طالبان کی حمایت میں اضافہ، اثرات کیا ہوں گے؟

پاکستان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں

پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی فضل محمد خان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی اینڈ کمپنی پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں اور وہ پاکستان سے تعلقات اچھے نہیں چاہتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان کی طرف سے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے۔ وزیراعظم نے خود اسمبلی میں یہ بتایا کہ پاکستان افغانستان سے خوشگوار تعلقات چاہتے ہے لیکن افغانستان میں کچھ ایسے عناصر ہیں جو پاکستان سے تعلقات نہیں چاہتے اور پاکستان کوبدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

Pakistan Belutschistan Coronavirus
کابل حکومت کا یہ الزام ہے کہ دس ہزار دہشت گردوں کو پاکستان نے تربیت دے کر افغانستان بھیجا ہےتصویر: DW/A. G. Kakar

تلخ تعلقات کے ادوار

اسلام آباد کی پرسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سفارتی محاذ اور دیگر محاذوں پہ ہمیشہ تعلقات خراب رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تقریبا تمام ادوار میں ہیں ناخوشگوار رہے ہیں۔ "یہ تعلقات ایوب اور بھٹو صاحب کے دور میں بھی ناخوشگوار رہے ہیں اور ضیا کے دور میں بھی، نوے کی دہائی اور نو گیارہ کے بعد بھی، ان میں بہت تلخی آئی۔ صرف طالبان کے مختصر دور میں یہ تھوڑے بہتر رہے یا بھٹو کے دور میں کچھ وقت کے لئے بہتر تھے۔‘‘