1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 کابل اور دہلی سے بات ہو سکتی ہے تو پی ٹی ایم سے کیوں نہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
15 جون 2020

پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ ملک میں اگر اختیار سیاسی جماعتوں کے پاس ہوتا تو مذاکرات بھی ہوتے اور مسائل بھی حل ہوجاتے لیکن یہاں طاقت کسی اور کے پاس ہے۔

https://p.dw.com/p/3dnhr
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

پاکستانی وزیر دفاع پرویز خٹک کی طرف سے پشتون تحفظ مومنٹ کو مذاکرات کی تازہ دعوت  اتوار کو دی گئی، جس کا پی ٹی ایم کے ایم این اے محسن داوڑ نے خیر مقدم کیا۔

لیکن وزیر دفاع اس سے پہلے بھی پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کر چکے ہیں اور وہ بے نتیجہ رہے۔ اس لیے ملک میں کئی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس بار یہ کوئی سنجیدہ پیشکش تھی یا محض ایک سیاسی بیان۔

پی ٹی ایم کے تحفظات  

پی ٹی ایم کی مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ انہیں مذاکرات کا تلخ تجربہ ہے۔ "مذاکرات تو دشمن سےبھی کیے جاتے ہیں اور ہم تو ہمیشہ ہی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اگر ملک میں حقیقی معنوں میں اختیار سیاسی جماعتوں کے پاس ہوتا تو مذاکرات کامیاب بھی ہوتے اور مسائل حل بھی ہوتے۔ یہاں طاقت کسی اور کے پاس ہے۔"

ان کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے ننانوے فیصد مسائل دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق ہیں۔ "پرویز خٹک میں سکت نہیں کہ وہ ان مطالبات کو حل کرا سکیں یا وہ کوئی بامعنی مذاکرات کرسکیں لیکن پھر بھی ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔"

Pakistan Waziristan Armee Infanterie ARCHIV
تصویر: picture-alliance/AP

'فوج مخالف نعرے نہیں چلیں گے'

پی ٹی آئی کے مطابق حکومت نے پی ٹی ایم کو ہر پلیٹ فارم پر مذاکرات کی دعوت ہے۔ رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ"انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن ہم فوج مخالف نعرے اور بیانات برداشت نہیں کریں گے۔ پی ٹی ایم کو اپنے بیرونی رابطوں کے حوالے سے بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی۔ اگر پی ٹی ایم نے فوج مخالف رویہ ترک نہیں کیا اور تو اس کے خلاف ایکشن بھی ہوسکتا ہے۔"

بغیر مشاورت کے مذاکرات کی پیشکش؟

 بعض عسکری حلقے بھی بظاہر پی ٹی ایم سے بات کرنے کے حق میں نہیں۔ فوجی تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفے کہتے ہیں، "میں نے قبائلی علاقوں میں ڈیوٹی کی ہے۔ ان لوگوں کے حکومت سے کوئی مطالبات یا مسائل نہیں ہیں۔ مسائل پی ٹی ایم کھڑی کر رہی ہے۔ مسئلہ ہے تو ان کے فوج دشمن رویے اور بیرونی رابطوں کا ہے۔ فوج نے تو وہاں امن قائم کرکے کئی ترقیاتی کام کرائے ہیں۔ میرے خیال میں پرویز خٹک نے یہ پیشکش بغیر کسی کی مشاورت کے اپنے ہی طور پر کی ہے اور میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں۔"

پی ٹی ایم سے وابستہ ارکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر
تصویر: Reuters/A. Soomro

سیاسی حلقوں کا خیرمقدم

تاہم سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی پیشکش مثبت بات ہے۔ بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کہا کہ اگر پاکستان بھارت اورافغانستان سے مذاکرات کرنے کےلیے تیار ہے تو اپنے لوگوں سے بات کیوں نہیں ہو سکتی؟

"ہم کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم، بلوچ عسکریت پسندوں، سندھی قوم پرستوں اور ساری چھوٹی قومیتوں سے مذاکرات ہونے چاہیئیں۔ ملک خطرات میں گھرا ہے اور ہمیں سیاسی طریقے سے اپنے مسائل حل کرنے چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ نے طاقت استعمال کر کے معاملات کو بگاڑا ہے۔ دنیا میں افغان طالبان بہت بڑے دہشت گرد ہیں۔ ہم ان کے مذاکرات کرارہے ہیں تو اپنے لوگوں سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتے۔"

اے این پی کی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ
تصویر: privat

مذاکرات سے پہلے اعتماد سازی

عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک ایک کٹھ پتلی وزیر ہیں، جنہیں اپنی وزارت تک میں کسی فیصلے کا اختیار نہیں۔ "تو پھر وہ کس حیثیت میں مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں؟ کیا ان کے پاس اتنا اختیار ہے کہ وہ جو وعدے کریں، ان کو پورا کریں؟ پچھلی مرتبہ جب انہوں نے مذاکرات شروع کیے تو منظور پشتین کو گرفتار کر لیا گیا اور پی ٹی ایم کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا گیا۔ تب وزیر دفاع خاموشی سے غائب ہوگئے تھے۔"

بشریٰ گوہر کے مطابق اگر حکومت واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو پہلے اسے اعتمادی سازی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا، "حکومت کو چاہییے کہ وہ خارقمر چیک پوسٹ سانحے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرے، ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دے، پی ٹی ایم کے خلاف جھوٹے مقدمات واپس لے، مصالحتی کمیشن قائم کرے، ٹارگیٹ گلنگ کی تازہ لہراور طالبان کی تنظیم نو کا جائزہ لے اور ان لوگوں کو معاوضہ دے جو دہشت گردی کی جنگ میں متاثر ہوئے ہیں۔"