کالعدم جماعتوں کے خلاف کارروائی، کیسا ردعمل ممکن ہے؟
6 مارچ 2019
پرویز مشرف کے اس فیصلے کے بعد اس تنظیم کے بعض ارکان نے بغاوت کر دی ۔ سیف الرحمان سیفی کی سربراہی میں ان نوجوان جہادیوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک بھر میں چار کے قریب خود کش حملوں میں مسیحی برادری کو نشانہ بنایا۔ یہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں ہونے والے پہلے خودکش حملے تھے ۔ دراصل یہ اس وقت کی فوجی حکومت کی طرف سے کالعدم جیش محمد کے خلاف کارروائی کا فوری رد عمل تھا۔ اس بات کا اعتراف خود سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنی خود نوشت سوانح عمری In the line of fire میں کررکھا ہے ۔ بعد میں سیف الرحمان سیفی اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم اس واقعے کے بعد مولانا مسعوداظہر روپوش رہے۔ ان کی نقل وحرکت پر بھی پابندی رہی مگرکالعدم جیش محمد کسی نہ کسی رنگ میں زندہ ضروررہی۔
اس کے کارکن ٹوٹے اور وہ ریاست کے اندر دہشت گردی کے وارداتوں میں بھی ملوث ہوئے۔ مسعود اظہر نے ایسے عناصر کی ببانگ دہل مزمت کی اور نہ ہمت افزائی تاہم وہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی جماعت کو برے وقت سے نکالنے میں کامیاب ضرور ہوئے ۔
اس سارے واقعے کے بعد دوسری اہم پیش رفت سال نومبر 2008میں سامنے آئی، جب بھارتی شہر ممبئی پر حملہ ہوا اور اس کا الزام پاکستان اور لشکرطیبہ نامی تنظیم پر لگایاگیا۔ اس وقت پاکستان کے منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فروری 2009 میں لشکرطیبہ کے آٹھ ارکان کے خلاف کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں مقدمے کی منظوری دی اور ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرکے گرفتاریاں کیں۔ اس وقت مختلف قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں لشکر طیبہ کی طرف سے ممکنہ رد عمل کی باتیں ضرور سامنے آئیں اور یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ اس جماعت کے لگ بھگ تین سو کے قریب کارکن منحرف ہوگئے ہیں۔ کچھ نے دیگر کالعدم تنظیموں میں شمولیت اختیار کی تو کچھ انفرادی طور پر ریاست پاکستان کےخلاف دہشت گردی میں ملوث رہے۔
لشکر طیبہ کو اقوامِ متحدہ اور امریکا پہلے ہی دہشت گرد قرار دے چکے تھے۔ لشکر طیبہ دراصل جماعت الدعوہ سے ہی منسلک جماعت ہے تاہم جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید احمد اس نازک معاملے پر بات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔
اس بلاگ کے آغاز میں ان دو واقعات اور ان کے نتیجے میں ان جماعتوں کے اندر پائے جانے والے ردعمل کا ذکر اس لیے کیا کہ آپ کو بتایا جاسکے کہ ان جماعتوں کے خلاف فوری کاروائی کا ممکنہ رد عمل کیا ہوسکتا ہے۔ پرویز مشرف کی طرف سے انتہاپسندی میں ملوث تنظیموں کےخلاف کارروائی کی گئی تو دسمبر2003 میں ان پر دو حملے کیے گئے، مگر وہ محفوظ رہے۔
بے نظیربھٹو نے ان جماعتوں کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی تو انہیں راولپنڈی میں دہشت گردی کا نشانہ بنا دیاگیا۔ لہذا جب بھی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی کوئی آواز اٹھتی ہے تو اعلیٰ ترین سطح پر خوف بھی فطری طور پر سامنے آتا ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے کالعدم جیش محمد کے رہنماؤں کی گرفتاری اور جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ممکنہ طور پر ایسے ہی کسی ردعمل کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں انتہاپسندی یا دہشت گردی میں مجموعی طور پر 75 کے قریب چھوٹی بڑی تنظیمیں ملوث ہیں، جن میں سے 70 تنظیموں کو وزارت داخلہ پہلے ہی کالعدم قرارد ے چکی ہے۔ جو جماعتیں کالعدم نہیں قراردی گئیں وہ یا تو غیر متحرک ہیں یا صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک محدود ہیں۔
ان تمام جماعتوں میں سب سے اہم دو تنظیمیں ہیں یعنی جیش محمد اور جماعت الدعوہ یا لشکرطیبہ۔ جیش محمد کو جنرل مشرف نے کالعدم قراردیا تھا جبکہ جماعت الدعوہ کو وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اس کی ذیلی ادارے فلاح انسانیت فاونڈیشن کے ہمراہ چھ مارچ کو کالعدم قرار دیا ہے۔ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق جیش محمد کے ملک بھر میں لگ بھگ چالیس ہزار سے زائد تربیت یافتہ متحرک کارکن موجود ہیں جبکہ ایک محتاط اندازے کےمطابق جماعت الدعوہ کے پاس 75 ہزار سے زائد تربیت یافتہ متحرک کارکن موجود ہیں ۔ ان جماعتوں پر پابندی کے بعد سب سے بڑا چیلنج ان جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کے کارکنوں کو کنٹرول کرنا ہے۔
ان جماعتوں کے خلاف کاروائیوں کا آغاز ہوا تو کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت پرویز مشرف کی طرز پر چل نکلی ہے۔ بھارتی پائلٹ کو رہا جب کہ ہمارے مدارس کو بند کیا جا رہا ہے۔ دشمنوں کے لیے نرم اور اپنے لیے سخت یہ کون لوگ ہیں؟ حکومت کی طرف سے جماعت الدعوہ اور فلا ح انسانیت فاونڈیشن کے خلاف کاروائی سے قبل ہی ان اداروں نے اپنے دفاتر بند کردئیے تھے بہ ظاہریہ اس بات کی علامت ہے کہ انہیں اس کارروائی کے بارے میں پہلے ہی کسی نے مطلع کر دیا تھا۔ اس جماعت یا اس کے کارکنوں کی طرف سے فی الحال کوئی ردعمل تو سامنے نہیں آیا تاہم ایسا نہیں ہے کہ یہ رد عمل ہوگا نہیں۔
یوں تو پاکستان نے سال 2002 سے 2003 میں پہلی بار دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث تنظیموں پر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔اس کے بعد دہشت گردی کےخلاف جاری جنگ میں وقتا فوقتا یہ کارروائیاں کی جاتی رہیں مگر دوسری اہم ترین کاروائی سولہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی صورت عمل میں لائی گئی۔
نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں کالعدم جماعتوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا ایک اہم نکتے کے طور پر شامل تھا مگر یہ کارروائیاں جماعت الدعوہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے خلاف اس لیے بھرپور طریقے سے نہ کی جاسکیں کہ یہ تنظیمیں پاکستان کے اندر کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث پائی گئیں نہ جرائم میں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان جماعتوں کی قیادت خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی اور پاکستان تنقید کی زد میں بھی آتارہا۔ دوسری طرف پاکستان کی ریاست سے جنگ کرنے والی تنظیموں کالعدم تحریک طالبان، داعش وغیرہ کےخلاف کارروائی بھرپور انداز میں کی جاتی رہے ہے۔
افغانستان میں روس کے خلاف امریکا کی جنگ کے دورسے پاکستان میں جہادی عناصر کی موجودگی بھی ایک حقیقت ہے ۔ جو مختلف صورتیں اختیار کرتی رہی۔ کچھ عناصر ریاست کے ساتھ رہے تو کچھ مخالف بھی مگر ریاست کسی نہ کسی طریقے سے ان سے نمٹتی ضرور رہی ۔
دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر دو مرکزی نکات ہیں۔ ان نکات کے حوالے سے پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کے تحت عسکری یا دہشت گرد تنظیموں کو بطور ہتھیار استعمال کرکے افغانستان اور بھارت میں مداخلت کی جاتی ہے۔ پاکستان سرکاری طور پر شروع دن سے کسی ملک کے اندر مداخلت کی مخالفت کرتا ہے مگر بھارت اور افغانستان کی طرف سے ان جماعتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام شدت سے لگایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے دنیا میں افغانستان کی اہمیت اور بھارت کے اثرو رسوخ سے اب پاکستان پر لگنے والے الزامات کا جائزہ باریک بینی سے لیا جارہا ہے ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہو یا ایشیا پیسفک گروپ یہ دونوں ادارے اسی حوالے سے پاکستان پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
پلوامہ پر حملے کے بعد 21 فروری کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی میں ان تنظیموں کے خلاف بلا تخصیف کارروائی کا عندیہ دیا گیا، جس کے بعد ان دو جماعتوں یعنی جماعت الدعوہ اور جیش محمد کے خلاف کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے ایسی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں میں ہمیشہ یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ آیا ایک منتخب حکومت کے وزیراعظم کی طرف سے کیے جانے والے ان فیصلوں کو ریاست کے باقی اداروں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے یا نہیں ؟ ماضی میں وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں ایسی تنظیموں کے بارے میں منعقدہ اجلاس کی خبر ، ڈان لیکس اسکینڈل ، کی صورت میں سابق حکومت کے خلاف چارج شیٹ کے طور پر سامنے آئی تھی۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں 27 فروری کی شام پارلیمینٹ ہاؤس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پارلیمانی پارٹیوں کو دی جانے والی بریفنگ بظاہر یہ بتا رہی ہے کہ اس بار انتہا پسند تنظیموں میں اچھی اور بری کی تفریق کیے بغیر بلا تفریق کارروائی کی جائے گی اور بظاہر اس معاملے پر سول اور ملٹری قیادت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔
سنا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بند کمرے کے اس اجلاس میں سیاسی رہنماؤں کو بتایا کہ پاکستان کسی طور پر بھی پلوامہ حملے میں تو ملوث نہیں، نہ ایسا سوچا جاسکتا ہے۔ اس اجلاس میں آرمی چیف کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو بتا دیا گیا کہ اب دہشت گردی کے خلاف کارروائی وقت کی ضرورت ہے اور اس پر بھرپور انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ کسی کو بھی پاکستانی سرزمین دہشت گردی کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے یہ بیانات خوش آئند ہیں توقع کی جانا چاہیے کہ کالعدم جماعتوں کے خلاف کارروائی کے دوران ان جماعتوں کے کارکنوں کے ممکنہ ردعمل پر نہ صرف نظر رکھی جائے گی بلکہ ان کو قومی دھارے میں لانے کے لیے پالیسی پر بھی عمل درآمد کیا جائے گا۔
اقتدار کے ایوانوں میں ان جماعتوں کے کارکنوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ایف سی اور رینجرز میں نوکریوں سمیت دیگر تجاویز بھی گردش کر رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جماعتوں کےکارکنوں کو متبادل روزگار یا آؤٹ لیٹ نہ دے کر ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو یہ افراد کسی نقصان کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔