کانگریس اور ڈی ایم کے کا تنازعہ حل
8 مارچ 2011بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو اور پودوچیری Puduchery کی یہ جماعت لوک سبھا میں 18 نشستیں رکھتی ہے۔ یہ نشستیں من موہن سنگھ کی حکومت کو سادہ اکثریت دلوانے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان نشستوں کے بغیر کانگریس دیگر چھوٹی جماعتوں کا سہارا لینے یا اقلیتی حکومت قائم رکھنے پر مجبور ہوسکتی تھی۔
545 کے پارلیمان میں اس وقت 273 نشستوں پر حکومتی اتحادی براجمان ہیں جو سادہ اکثریت سے ایک زیادہ ہے۔
تامل ناڈو میں اپریل کے ریاستی انتخابات میں نشستوں کے معاملے پر اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب ڈی ایم کے اور کانگریس کے درمیان اختلافات پیدا ہوا تھا۔ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ وہ 63 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی جبکہ ڈی ایم کے چاہتی ہے کہ کانگریس 60 نشستوں پر امیدوار نامزد کرے۔ اطلاعات کے مطابق اب دونوں فریقین کے مابین اس معاملے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔
کانگریس کی سربراہی والی حکومت پہلے ہی مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات اور مہنگائی پر قابو نہ پانے جیسے مسائل کے سبب مقبولیت کھو رہی ہے۔ ڈی ایم کے نے مرکزی حکومت سے اپنے وزراء کو مستعفی کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی مگر اس کے بعد بھی کانگریس حکومت کی مشروط حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔
ایسی صورتحال میں مخلوط حکومت کو کوئی بڑا خطرہ تو نہیں تھا البتہ سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں فریقوں نے منگل کو مذاکرات کا عمل جاری رکھا۔
کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عمومی طور پر اندرونی سیاست میں اس نوعیت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں تاہم اس بار انہوں نے بھی اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔
ڈی ایم کے کی اعلیٰ قیادت نے پیر کی شب نئی دہلی میں ان سے ملاقات بھی کی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اپنے ذرائع سے دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ معاملہ دراصل سیاسی سودے بازی کا حصہ ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین