کانگو میں جنسی زیادتی کے سینکڑوں واقعات، اقوام متحدہ
26 ستمبر 2010اس افریقی ملک میں جنسی زیادتی کے ان واقعات کے بارے میں، جن کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی، چھان بین کے ابتدائی نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ ان نتائج کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی خاتون کمشنر ناوی پلائے نے کہا ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر جنسی زیادتی کے ان جرائم اور ان کے پیچھے کارفرما شیطانی سوچ کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس سے انسانیت پر یقین کا متزلزل ہو جانا ایک قابل فہم بات ہے۔
ناوی پلائے نے کہا کہ ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے مشرقی حصے میں، جہاں جنسی زیادتی کے بار بارنظر آنے والے واقعات گذشتہ پندرہ برسوں سے ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں، ان تازہ واقعات کی نوعیت اور بھی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان جنسی جرائم کے ارتکاب کے سلسلے میں غیر معمولی سرد مہری اور منظم مجرمانہ سوچ سے کام لیا گیا۔
انہوں نے کہا، بظاہر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان جرائم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ان کا ارتکاب کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی ریاست ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو میں، جہاں کئی برسوں سے خانہ جنگی اور خونریزی معمول کی باتیں ہیں، وسیع پیمانے پر جنسی زیادتی کے ان واقعات کا ارتکاب اس سال 30 جولائی اور دو اگست کے درمیانی عرصے میں کیا گیا۔
ناوی پلائے کے مطابق مشرقی کانگو کے والی کالے نامی علاقے میں صرف چار دنوں پر محیط اس عرصے کے دوران 235 خواتین، 52 بچیوں، تیرہ مردوں اور تین لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں۔ ان میں سے کئی ایک کو تو بار بار جنسی تشدد اور ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔
ان واقعات کے دنوں میں کانگو کے اس علاقے میں تین مسلح ملیشیاگروپوں کے قریب دو سو ارکان کا قبضہ تھا، جو بھاری ہتھیاروں سے مسلح تھے ۔ناوی پلائے جنہوں نے سینکڑوں مردوں،خواتین اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے ان واقعات سے قبل علاقے کے بہت سے دیہات کا باقی ماندہ دنیا سے رابطہ بالکل منقطع کر دیا تھا۔
کانگو میں جنسی زیادتی کے ان سینکڑوں واقعات کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق جن بالغ اور نابالغ افراد کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں، ان کی تعداد آئندہ اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ماہرین نے اس کا سبب یہ بتایا کہ مشرقی کانگو کے کئی علاقوں میں ایسے جنسی جرائم اور لوٹ مار کا ارتکاب ابھی تک جاری ہے۔ اس لئے متاثرہ افراد کی حتمی تعداد اور بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کم ازکم تیرہ دیہات میں بہت سے مبینہ باغی ابھی تک ایسے جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارے کی کمشنر برائےانسانی حقوق ناوی پلے نے یہ بھی کہا کہ باغیوں نے ان جنسی جرائم کا ارتکاب اس طرح کیا کہ باغیوں کا ایک گروپ اگر مردوں اور خواتین کو جسمانی تذلیل کا نشانہ بناتا تھا، تو ایک دوسرا گروپ ایسے مقامی باشندوں کی تلاش میں ہوتا تھا، جو اپنی جان بچانے کے لیے اپنی رہائش گاہوں سے فرار ہو کر جنگلوں میں پناہ کی تلاش میں ہوتے تھے۔ بعد میں ان لوگوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے بعد ان سے جبری مشقت بھی کروائی جاتی تھی۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی