1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کترنوں کے رگز، بنگلہ دیشی تاجر کا انوکھا کاروبار

3 جنوری 2011

بنگلہ دیش کے ایک تاجر نے کپڑے کی فیکٹریوں میں ہرماہ بچ جانے والی کئی ٹن کترنوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک نہایت سود مند کاروبار شروع کیا ہے۔ اس تاجر کی تیارکردہ مصنوعات کومغربی دنیا میں بے حد مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/zt52
تصویر: Elina Helminen

بنگلہ دیش کی فیکڑیوں میں ہر سال مغربی برانڈز کے لئے لاکھوں ڈالر مالیت کے کپڑے بنائے جاتے ہیں۔ اس دوران کٹائی کے عمل میں بہت بڑی مقدار میں بچ جانے والی کترنوں کو ری سائیکلنگ سیکٹر کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جہاں ساڑھے چار ہزار سے زائد کپڑوں کے کارخانوں سے حاصل ہونےوالے ان بچےکچے کپڑوں کی جینز اور ٹی شرٹس بنا کرانہیں مقامی مارکیٹ میں کم قیمت میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔

Flash-Galerie Using a loom, Story Rugs exhibition, Turku
کترنوں کے ان خوبصورت رگز کو یورپ میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہےتصویر: Sanna Moisala

ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش میں سالانہ تقریباﹰایک لاکھ ٹن کترنیں حاصل ہوتی ہیں۔ تاہم ایک بنگلہ دیشی تاجر توحید بن سلام نےایک نیا طریقہ ڈھونڈا نکالا ہے، جس کے ذریعے گارمنٹس فیکٹریوں سے حاصل ہونے والی کترنوں کو زیادہ سود مند طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ ہے ان کترنوں کے آرائشی رگز بنا کر بیرون ممالک برآمد کرنا۔

ایک خبر رساں ایجینسی سے بات کرتے ہوئے توحید بن سلام کا کہنا تھا کہ فیکٹریوں سے نکلنے والے کپڑوں کے یہ ٹکڑے لوگوں کی نظر میں ناکارہ کچرا ہیں لیکن ان کی نظر میں یہ نیا کاروبار شروع کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جرمن کمپنی KiK نے ان کی بنائی ہوئی مصنوعات کو خریدنا شروع کیا، جس کے بعد سے ان کے اس کاروبار میں ترقی ہوتی چلی گئی۔

جرمن کمپنی KiK Textilien یورپ میں کم قیمت کپڑے فروخت کرنے والی سب سے بڑی ٹیکسٹائل کمپنی ہے اور یورپ کے چھ ممالک میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔

Textilarbeiterin in Bangladesch
معروف مغربی برانڈز بنگلہ دیش سے کم قیمت کپڑے حاصل کرتے ہیںتصویر: AP

توحید نے اپنی کمپنی کلاسیکل ہینڈ میڈ پراڈکٹس بنگلہ دیش کا سنگ بیناد 2008ء میں رکھا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک یہ کمپنی ترقی کی مختلف منازل طے کرتے ہوئے سالانہ 80 ملین ٹکا یعنی 12 لاکھ ڈالر کا کاروبار کرتی آ رہی ہے۔ اس کمپنی سے 530 افراد وابستہ ہیں، جن میں سے اکثریت خواتین کی ہے۔ اس فیکٹری میں ماہانہ 80 ہزار رگز بنائے جاتے ہیں اور یہ تمام جرمنی برآمد کر دیے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش جرمن چیمبر آف کامرس سے تعلق رکھنے والے ڈینئیل سیڈل کے مطابق کم قیمت، منفرد، ہاتھ سے بنائی ہوئی اور ماحول دوست ہونے کی وجہ سے یہ رگز جرمنی میں انتہائی مقبول ہیں اورجرمنی کی مجموعی آبادی کا کل تین فیصد یعنی تقریباﹰ دو ملین افراد ان رگز کو خرید چکے ہیں۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں کپڑے کے ساڑھے چار ہزارکارخانے موجود ہیں،جن میں سے 600 بڑے کارخانے ہیں، جن میں کام کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زائد ہے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ

ادارت:عدنان اسحاق