کثیرالثقافتی معاشرے کی تشکیل ناکام: انگیلا میرکل
18 اکتوبر 2010وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ویک اینڈ پر دارالحکومت برلن سے نزدیک واقع جرمنی کے تاریخی شہر پوٹسڈام میں قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کے نوجوان اراکین کے ساتھ ایک ملاقات میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ میرکل نے مزید کہا ہے کہ تارکین وطن کو معاشرے میں ضم ہونا ہوگا اور یہاں کی ثقافت اور اقدار اپنانا ہوں گی۔ جرمن چانسلر نے واضح الفاظ میں کہا’ ہم خود کو مسیحی اقدار سے جُڑا ہوا تصور کرتے ہیں۔ جنہیں یہ قبول نہیں اُن کے لئے اس معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ غیر ملکیوں اور تارکین وطن کو مراعات دیتے رہنا کافی نہیں ہے۔ جرمن ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تارکین وطن سے مطالبے کرے۔ مثلاً تارکین وطن پر یہ لازمی ہونا چاہئے کہ وہ قومی شاعر وولفگانگ گوئٹے کی زبان ’جرمن‘ پر عبور حاصل کریں اور لڑکیوں کی جبری شادی جیسی فرسودہ روایات کو مٹائیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا یہ بیان اُن کی ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوان کے ساتھ ایک ہفتہ قبل ہونے والی اُس ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں جرمنی میں آباد ترک برادری کی اس مغربی معاشرے میں انضمام کے عمل کو بہتر اور موثر تر بنانے کے عزم کا دوطرفہ اظہار ہوا تھا۔ یاد رہے کہ جرمنی میں آباد تقریباً ساڑھے تین ملین مسلمانوں میں سے ڈھائی ملین کا تعلق ترکی سے۔
اسی ویک اینڈ پر ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے بھی جرمنی میں آباد ترک برادری پر زور دیا تھا کہ جس وطن کو انہوں نے اپنے نئے ملک کی حیثیت سے اپنایا ہے یعنی جرمنی کو، وہاں کی زبان کو بھی اپنائیں۔ عبداللہ گُل نے جرمن اخبار ’ زوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کو ایک بیان میں کہا ’ اگر کوئی اُس ملک کی زبان نہیں سیکھتا جہاں وہ رہتا ہے تو یہ امر کسی کے بھی حق میں نہیں ہو سکتا، نہ ہی ترک وطن کرنے والے، نہ ہی جس ملک کا اُس نے انتخاب کیا ہے اور نہ ہی اُس معاشرے کے لئے جس میں وہ رہ رہا ہے۔
ترک صدر نے زبان سیکھنے کے عمل کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر جرمنی میں آباد اپنے ہم وطنوں سے کہا ہے کہ انہیں جرمن زبان نہ صرف سیکھنی چاہئے بلکہ اس پر عبور حاصل کرنا چاہئے تاکہ نہایت روانی اور بغیر کسی غیر ملکی لہجے کے وہ جرمن زبان بول سکیں۔ عبداللہ گل کے مطابق یہ عمل نرسری کی سطح سے شروع ہو جانا چاہئے۔
جرمنی میں غیر ملکیوں کے انضمام کامتنازعہ موضوع ایک بار پھر ہر سطح پر اُس وقت سے زیر بحث آ گیا ہے جب حال ہی میں کرسچن سوشل یونین، جو قدامت پسند جرمن مسحیوں کی نمائندہ جماعت مانی جاتی ہے کہ کے لیڈر ہارسٹ زے ہوفر نے ایک بیان میں کہا تھا ’ جرمنی کو مزید ترک اورعرب تارکین وطن کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہیں جرمن معاشرے میں ضم کرنا نہایت مشکل عمل ہے۔
جرمنی کی ایوان صنعت و تجارت کے سربراہ Hans Heinrich Driftmann نے ایک حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ جرمنی کو 4 لاکھ کوالیفائیڈ انجینئرز اور پیشہ ور کارکنوں کی شدید ضرورت ہے جن کی کمی کے سبب جرمنی میں اقتصادی ترقی کو خطرات لاحق ہیں۔
ایک جرمن تھنک ٹینک Friedrich Ebert Foundation کی طرف سے کروائے گئے ایک تازہ ترین سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً ایک تہائی جرمن باشندے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے ملک میں غیر ملکیوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ پائی جاتی ہے اور انہیں ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیا جانا چاہئے۔
ابھی تقریباً 8 ہفتوں قبل ہی جرمنی کے سینٹرل بینک کے سربراہ تھیلو زاراسین کی جرمنی میں غیر ملکیوں کے انضمام سے متعلق ایک متنازعہ کتاب شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والے مسلمان کم عقل و فہم کے مالک ہیں اور یہ جرمن معیشت پر محض بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عابد حسین