کراچی میں امن کے لیے جزوی کرفیو کا امکان
16 جنوری 2011پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں پچھلے چند روز میں متعدد سیاسی کارکنوں سیمت تین درجن سے زائد شہری مارے جا چکے ہیں۔ سال رواں کے دوران اب تک قتل کیے گئے سیاسی کارکنوں کی تعداد ایک درجن سے زائد ہو چکی ہے۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے چھ اور متحدہ قومی موومنٹ کے پا نچ کارکن شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں جاری قتل و غارت پر حکومت سندھ کی اتحادی جماعتوں کے درمیان خونریز لڑائی کا گماں ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک ان حالات کو ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ اتوار کے روز کراچی میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے شہر میں قیام امن کے لیے جزوی کرفیو نافذ کر کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف نیم فوجی کارروائی کا عندیہ بھی دیا، جس دوران سرچ آپریشن کے لیے ہیلی کاپٹر بھی استعمال میں لائے جائیں گے۔
اس بار شہر میں قتل و غارت گری کی اس سلسلے میں تیزی عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر جان پر گلشن اقبال میں قاتلانہ حملے کے بعد آئی ہے۔ لیکن ٹارگٹ کلنگ سے سب سے زیادہ متاثر اورنگی ٹاؤن کا علاقہ ہے، جہاں تین روز میں بارہ افراد کو ہدف بنا کر قتل کیا جاچکا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں کمی ہوئی ہے، کیونکہ پہلی بار ایسی وارداتوں میں ملوث ملزمان رنگے ہاتھوں گرفتار کیے گئے ہیں۔ پھر بھی جملہ حکومتی اعلانات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ اہلکاروں کے دعووں کے باوجود نہ تو شہر میں امن قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی حکومتی اتحادی جماعتوں میں پائی جانے والی بد اعتمادی میں کوئی کمی آ سکی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید حکومت کا حصہ ہونے کے باعث حکومتی اقدامات کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن موقع ملنے پر وہ اتحادیوں پر عدم اعتماد کے اظہار کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
شاہی سید کے الزامات نئے نہیں ہیں لیکن ایم کیو ایم فی الوقت ان پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کر رہی کیونکہ قوی امکان ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے کرفیو کے سلسلے میں کسی بھی اقدام سے قبل متحدہ قومی موومنٹ کو اعتماد میں لے لیا ہو۔
اسی مہینے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تیرہ ملزمان کی گرفتاری کے باوجود شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے سلسلے کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: مقبول ملک