کراچی میں بم دھماکہ، ایک شخص ہلاک متعدد زخمی
13 مئی 2022ایک مقامی پولیس افسر سجاد خان نے بتایا، ''ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ دھماکہ خیز مادہ ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا جسے ایک کوڑے کے ڈبے کے قریب پارک کیا گیا تھا۔‘‘
دھماکے کے ہدف کے بارے میں ابھی تک پتہ نہیں چلا ہے تاہم خان نے بتایا کہ دھماکے سے جن متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے ان میں کوسٹ گارڈ کی ایک گاڑی شامل تھی، جب کہ ایک راہ گیر دھماکے میں ہلاک ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ قریبی مکانات، دکانوں اور کاروں کی کھڑکیاں ٹوٹ گیئں اور متعدد گاڑیوں کو آگ لگ گئی۔ پولیس افسر نے بتایا، ''دھماکے کی وجہ سے سڑک پر کھڑی کم از کم آٹھ تا دس گاڑیوں میں آگ لگ گئی۔‘‘
کراچی خود کش دھماکہ اور اس دھماکے میں ربط
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے جائے واردات کا دورہ کرنے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کراچی یونیورسٹی کا خود کش بم دھماکہ اور اس دھماکے میں براہ راست کوئی ربط ہے۔
میمن کا کہنا تھا، ''کراچی ایک مصروف ترین شہر ہے اور یہ رات کو بھی جاگتا رہتا ہے۔ اس میٹروپولیٹن شہر کی آبادی تقریباً تیس لاکھ ہے اور ہزاروں کاریں صدر علاقے سے گزرتی ہیں اس لیے تمام کاروں کو چیک کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق کوئی مخصوص فرد، ادارہ یا گاڑی دھماکے کا ہدف نہیں تھی۔ ''اس دھماکے میں کوسٹ گارڈ کا کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا ہے۔‘‘
شرجیل میمن نے کہا کہ ماضی میں جو دہشت گرد پکڑے گیے ہیں اور اس واقعے کے لیے جو ذمہ لوگ ذمہ دار ہیں انہیں بخشا نہیں جائے گا۔
انتہا پسندوں کے حملوں میں اضافہ
گذشتہ 29 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں تین چینی شہری سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اسی سال جنوری میں بھی بلوچ علیحدگی پسندوں نے لاہور میں بم دھماکہ کیا تھا جس میں تین افراد ہلاک اور بائیس دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
اپریل 2021 میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں چینی سفیر کی جانب سے ایک ہوٹل میں منعقدہ پارٹی میں ہونے والے خودکش بم دھماکے میں چار افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ چینی سفیر تاہم بال بال بچ گئے تھے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں انتہا پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق مارچ اور اپریل کے درمیان حملوں میں چوبیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مذمتوں کا سلسلہ
وزیر اعظم شہبازشریف، وزیر داخلہ رانا ثنأ اللہ اور وزیر خارجہ بلاول زرداری بھٹو نے الگ الگ بیانات میں کراچی دھماکے کی مذمت، قیمتی جان کے ضیاع پردکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلی حمزہ شہباز اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی دھماکے کی مذمت اور متاثرین کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
واقعے کی انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے۔
ج ا، ص ز (اے ایف پی، ایجنسیاں)