کراچی میں تشدد، عام شہریوں کی دلگداز داستانیں
7 اگست 2011کراچی کے رہائشی اور ٹیکسی ڈرائیور غلام محمدکی سات سالہ اکلوتی بیٹی شمائلہ گزشتہ ماہ اس وقت دو گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گئی تھی، جب وہ اسکول سے واپس گھر آ رہی تھی۔
غلام محمد نے خبر ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شمائلہ کی ہلاکت کے بعد وہ اپنی زندگی کا مقصد کھو بیٹھا ہے،’ہماری بیٹی نے ہی ہماری زندگیوں کو معونیت بخشی تھی، اب ہمارے پاس جینے کا کوئی مقصد نہیں رہا‘۔ قصبہ کالونی کے رہائشی 36 سالہ غلام محمد نے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ شادی کے بارہ برس بعد دعاؤں اور منتوں کے بعد انہیں بیٹی نصیب ہوئی تھی۔
شمائلہ کو اس وقت گولیاں لگیں، جب وہ کتابیں تھامے، اسکول سے واپس گھر کی طرف رواں تھی۔ وہ شدید زخمی ہو گئی لیکن اس وقت متحارب گروپوں کے مابین شدید فائرنگ کے باعث اسے فوری طور پر ہسپتال نہ پہنچایا جا سکا۔
غلام محمد نے بتایا،’کسی نے مجھے بتایا کہ میری بیٹی کو گولیاں لگی ہیں، میں تمام تر خطرات کے باوجود پسپتال پہنچا لیکن تب تک شمائلہ کی لاش سرد خانے میں منتقل کی جا چکی تھی‘۔ شمائلہ ایک پشتون گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا باپ غلام محمد بیس برس قبل روزگار کی تلاش میں کراچی آن آباد ہوا تھا۔
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق شمائلہ ان تین سو افراد میں شامل ہے، جو گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں مارے گئے۔ کمیشن کے بقول رواں برس کراچی میں نسلی، سیاسی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر ہونے والے فسادات اور ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں مجموعی طور پر آٹھ سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی چیئر پرسن زہرہ یوسف کے بقول کراچی میں جاری فسادات میں زیادہ تر عام غریب شہری مارے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’کہنے کو تو لوگوں کو ان کی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر مارا جاتا ہے لیکن یہاں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو نسلی بنیادوں پر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد غریب اور بے گھر ہیں‘۔
کراچی میں ہونے والے انہی فسادات کے نتیجے میں اردو بولنے والے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا بائیس سالہ انور علی بھی مارا گیا۔ اس کے رشتہ دار محسن علی نے بتایا کہ وہ اپنی ماں اور دو چھوٹی بہنوں کی کفالت کرنے والا اکیلا ہی تھا۔
کراچی میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اضافی اہلکار تعینات کرنے کے باوجود غریب شہریوں کی شکایت ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان کی حفاظت کے لیے کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔کراچی میں تشدد کے لیے متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
کراچی میں واقع اردو یونیوسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر توصیف احمد کہتے ہیں کہ کراچی میں جاری تشدد میں اگرچہ مافیا ملوث ہے تاہم اس میں سیاسی پارٹیوں کے مسلح گروپ بھی شامل ہیں،’کراچی میں ہونے والی ہلاکتیں نسلی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں لیکن مارے جانے والے غریب لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ آخر کار انہیں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے‘۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی