کراچی میں دو روز میں 18 افراد قتل، شہر میں کشیدگی
21 ستمبر 2010مرنے والوں کی وابستگی مختلف سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے بتائی جاتی ہے۔ اتوار کی شام ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کا ایک مرتبہ پھر آغاز ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے مختلف علاقے پرتشدد واقعات اور فائرنگ کی لپیٹ میں آگئے۔
پیر کے روز بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور ان واقعات میں سیاسی اور فرقہ وارانہ عنصر بھی شامل ہوگیا، جب متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم اور شیعہ تنظیم کالعدم سپاہ محمد اور سنی تنظیم کالعدم سپاہ صحابہ کے بعض سرگرم کارکنوں کو بھی ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔
شہر کے بیشتر علاقوں میں اب بھی کشیدگی ہے۔ نیم فوجی رینجرز اور پولیس کے دستے شہر میں گشت کر رہے ہیں اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے ایک مرتبہ پھر قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو ان واقعات کی روک تھام کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ گزشتہ روز شام کو رضویہ میں ہلاک ہونے والے تنویر عباس کی تدفین سے واپس آنے والوں نے ہوائی فائرنگ شروع کردی، جس پر وہاں موجود نیم فوجی رینجرز نے مداخلت کی۔ اس دوران مشتعل افراد اور رینجرز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا، جس کے نتیجے میں مزید تین افراد ہلاک ہوگئے۔
اس کے بعد مشتعل افراد نے رضویہ سوسائٹی اور گل بہار کے علاقے میں متعدد گاڑیوں اور املاک کو نذر آتش بھی کردیا۔ کراچی پولیس کے سربراہ فیاض لغاری کا کہنا ہے کہ شہر میں حالیہ پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کو ہدف بنا کر قتل نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے قتل کے محرکات کچھ اور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس بہت جلد ان واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کر لے گی۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عمران فاروق کے لندن میں قتل کے بعد شہر کے حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول حکومت اور داخلہ امور کی صوبائی اور وفاقی وزارتیں شہر میں ہونے والی اس بد امنی کے ذمہ دار ہیں۔
ملک کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والے شہر کراچی میں گزشتہ آٹھ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 1148 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ٹارکٹ کلنگ کے وہ واقعات بھی شامل ہیں، جو 529 افراد کی موت کا سبب بنے۔ صرف اگست کے مہینے میں کراچی شہر میں 134 افراد کو قتل کیا گیا۔
اسی دوران شہر میں جرائم کی عمومی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت شہر میں امن و امان کی بحالی میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اب شہر مختلف مافیا گروپوں کے کنٹرول میں ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں یا پھر وہ خود بھی مالی فوائد سمیٹنے کے لئے ان فرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ہدف بنا کر قتل کئے گئے 529 افراد کے قاتلوں کوگرفتار کرنے میں ناکام حکومت کے ناقدین کے بقول کراچی شہر میں بدامنی، لاقانونیت اور مافیا گروہوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہنے والے شہر میں پولیس کے سربراہ وسیم احمد کو اب بطور ’انعام‘ وفاقی تحقیقاتی ادارے کا سربراہ بنادیا گیا ہے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ وسیم احمد کو صدر آصف علی زرداری اور ان کے کئی قریبی رفقاءکی حمایت حاصل ہے، اسی لئے انہیں اب FIA جیسے اہم ادارے کا سربراہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عصمت جبیں