1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخپاکستان

کراچی میں عہد رفتہ کی تاریخی باقیات اور شاندار موہٹہ پیلس

18 ستمبر 2024

سن 1999 میں موہٹہ پیلس میں باضابطہ طور پر ایک میوزیم کے قیام سے قبل یہ عمارت دو دہائیوں تک خالی پڑی رہی تھی۔

https://p.dw.com/p/4kj5R
Pakistan Mohatta Palace Museum in Karatschi
تصویر: Olesya Vernova/Zoonar/picture alliance

ممکن ہے کہ پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں واقع 'موہٹہ پیلس‘ پہلی نظر میں آپ کو بھارتی ریاست راجستھان کی یاد دلائے۔ یہ تاریخی عمارت اور اس کے در و دیوار راجستھان ہی کے کسی محل کا منظر پیش کرتے ہیں۔

موہٹہ پیلس پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کلفٹن کے اس علاقے میں واقع ہے، جہاں املاک کی قیمتوں کے ہوش ربا حد تک زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں 'پرائم ریئل اسٹیٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ موہٹہ پیلس ٹرسٹ کے وکیل فیصل صدیقی کے بقول اس محل جیسی عمارات کی زمین کو کئی افراد اپنی ملکیت بنانے کے خواہش مند ہوتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ''مادی لالچ کو ورثے پر سبقت‘‘ حاصل ہو چکی ہے۔

موہٹہ پیلس کی کہانی اور ہماری نادانی

اس عمارت کے ٹرسٹیز اسے ایک ڈینٹل کالج میں تبدیل کرنے کی ایک کوشش کر چکے ہیں، جو ناکام رہی تھی۔ تاہم اس پیلس کی حتمی ملکیت گزشتہ کئی دہائیوں سے لے کر آج تک قانونی طور پر متنازعہ ہی ہے۔

Pakistan Mohatta Palace Museum in Karatschi
موہٹہ پیلس پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں واقع ہےتصویر: Muhammad Sabir Mazhar/AA/picture alliance

موہٹہ پیلس متنازعہ کیوں؟

موہٹہ پیلس قیام پاکستان سے قبل شیو رتن موہٹہ نامی ایک امیر ہندو تاجر نے اپنی علیل اہلیہ کے لیے 1920ء کی دہائی میں تعمیر کروایا تھا۔ تب اس کی تعمیر کے لیے سینکڑوں گدھا گاڑیوں پر راجستھان کے مشہور گلابی پتھر کراچی لائے گئے تھے۔

سن 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد شیو رتن موہٹہ اپنی یہ رہائش گاہ چھوڑ کر بھارت چلے گئے تھے۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک یہ عمارت پاکستان کی وزارت خارجہ کے زیر استعمال رہی اور بعد میں اسے بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو منتقل کر دیا گیا تھا۔

گوا سے آئے مسیحیوں نے کراچی کیوں چھوڑا؟

فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد حکام نے یہ محل ان کی بہن شیریں جناح کے حوالے کر دیا تھا۔ مگر 1980ء میں شیریں جناح کا بھی انتقال ہو گیا اور پھر اس محل کی ملکیت کے حوالے سے ایک باقاعدہ تنازعہ پیدا ہو گیا۔

اس قانونی لڑائی میں موہٹہ پیلس کی ملکیت کے دعوے دار چند افراد کا کہنا تھا کہ وہ شیریں جناح کے رشتہ دار ہیں اور اس طرح اس عمارت پر ان کا حق ہے۔ بعد میں ایک عدالت کے حکم پر اس عمارت کو سربمہر کر دیا گیا تھا۔

Pakistan Mohatta Palace Museum in Karatschi
موہٹہ پیلس کی تعمیر کے لیے سینکڑوں گدھا گاڑیوں پر راجستھان کے مشہور گلابی پتھر کراچی لائے گئے تھےتصویر: IMAGO/Pond5 Images

بھوت بنگلے کے طور پر شہرت

عدالتی حکم پر سیل کیے جانے کے وقت سے ہی ویران پڑے ہوئے موہٹہ پیلس کے بارے میں عوامی سطح پر یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہاں بھوت پریت کا بسیرا ہے۔

موہٹہ پیلس میں قائم میوزیم کی ڈائریکٹر نسرین عسکری کا بچپن بھی یہی کہانیاں سنتے ہوئے گزرا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود بچپن میں وہاں سے بھاگ جایا کرتی تھیں کیونکہ تب ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ یہ پیلس دراصل ایک 'بھوت بسیرا‘ ہے۔

آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اور پاکستانی شہروں کا مستقبل

کراچی میں اس تاریخی عمارت کی یہ توہماتی شہرت آج بھی باقی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوا۔ ٹک ٹاک کے ذریعے آج بھی اس پیلس سے متعلق بھوت پریت کی بہت سی کہانیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یہی موہٹہ پیلس کئی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تاہم وہاں ویڈیوز بنانے پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔

اس عمارت کے مرکزی دروازے پر لگے ایک سائن بورڈ کے مطابق وہاں فیشن شوٹس، شادیوں اور اشتہارات کی شوٹنگ پر بھی پابندی ہے۔

اس عمارت میں قائم میوزیم کی ڈائریکٹر نسرین عسکری کا کہنا ہے کہ اگر کمرشل شوٹنگ کی اجازت دے دی جائے، تو یوں موہٹہ پیلس کو اچھی خاصی کمائی ہو سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک بار اگر یہ سلسلہ چل نکلا، تو وہاں ایونٹس کا انعقاد بھی ہونے لگے گا مگر ساتھ ہی اس تاریخی عمارت کو دیکھنے اور سراہنے کے لیے آنے والے شائقین کی آمد بھی بہت زیادہ ہو جائے گی۔

ز ع / م م (اے پی)

کراچی میں سائیکلنگ کے ٹرینڈ میں اضافہ، خواتین بھی اب سڑکوں پر