’’کراچی میں لسانی آگ بھڑک سکتی ہے‘‘
27 جنوری 2022پاکستان کا معاشی حب ایک بار پھر لسانی تفریق کے باعث پیدا ہونے والی تقسیم اور اس سے جنم لینے والی ممکنہ بدامنی کی جانب گامزن ہے۔ تازہ ترین زیادتی سندھ حکومت کی جانب سے متعارف کرایا گیا بلدیاتی ترمیمی قانون ہے جس کے تحت کراچی کے بڑی آمدنی والے اداروں کے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبے بھی سندھ حکومت کے ماتحت کر دیے گئے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں عددی اکثریت کی بنا پر پیپلز پارٹی یہ ترمیمی قانون منظور کرانے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن ایم کیو ایم پاکستان، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور فنکشنل لیگ سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں نے اس معاملے پر احتجاج شروع کیا، جو اب پر تشدد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایم کیو ایم کا یوم سوگ
ایم کیو ایم کی ریلی پر سندھ حکومت کے ایکشن پر وفاق میں تحریک انصاف اور کراچی میں جماعت اسلامی، مہاجر قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی، ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے مذمت کی گئی۔ فاروق ستار اور پی ایس پی کا وفد اظہار ہمدردی کے لیے بہادرآباد مرکز جا پہنچا۔
ایم کیو ایم نے اس واقعے پر یوم سوگ کی کال دی، ایم کیوایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اس پرتشدد کارروائی کے تناظر میں مراد علی شاہ پر قتل کا مقدمہ درج کرائی جائے گی۔
یہاں آنے سے منع کیا تھا، غنی
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر سندھ حکوت کو سیاسی احتجاج سے کوئی پریشانی ہوتی تو 28 روز سے جماعت اسلامی کا پرامن دھرنا سندھ اسمبلی کے گیٹ پر جاری ہے انہیں کیوں کچھ نہیں کہا گیا۔ سعید غنی نے کہا، ''انہیں بتایا گیا تھا کہ وزیراعلٰی ہاؤس سے متصل ہوٹلوں میں پاکستان سپر لیگ کی ٹیمیں قیام پذیر ہیں یہاں نہ آئیں، بدقسمتی سے ایم کیو ایم کا پرانا طرز عمل ہے کہ خواتین اور بچوں کو آگے کر دیتے ہیں۔‘‘ ایم کیو ایم کے ہلاک ہونے والے کارکن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، '' محمد اسلم کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے دیں تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔‘‘
ایم کیو ایم کا کارکن ہلاک
جمعرات کے روز ایم کیو ایم کی جانب سے نکالی جانے والی ریلی پریس کلب جانے کی بجائے اچانک وزیراعلٰی ہاؤس کی جانب مڑ گئی، جہاں پولیس پہلے ہی تیار تھی، پولیس نے مرد و خواتین کی تفریق کیے بغیر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کا ایک کارکن محمد اسلم ہلاک جبکہ رکن سندھ اسمبلی اور خواتین سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔ محمد اسلم کو آج سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلی مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر اور ایم کیو ایم رہنما امین الحق کو فون کرکے واقعے پر اظہار افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ محمد اسلم کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے کی اجازت دی جائے تاکہ موت کی وجہ معلوم کی جا سکے۔
’کراچی کو اس کا حق دو‘
دوسری جانب بلدیاتی ترمیمی قانون پر سب سے پہلے اور توانا آواز جماعت اسلامی کی ہے۔ جماعت اسلامی گزشتہ دو برسوں سے کے الیکڑک اور صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے جب کہ متنازعہ مردم شماری کے خلاف "حق دو کراچی" کے نام سے تحریک بھی جاری رکھے یوئے ہے۔ جماعت اسلامی موجودہ بلدیاتی ترمیمی قانون کی منظوری سے پہلے حکومت کی دعوت پر ایک موثر بلدیاتی نظام کا مسودہ بنا کر بھی سندھ حکومت کو دے چکی تھی جسے یک سر نظر انداز کرنے پر جماعت اسلامی نے یکم جنوری سے سندھ اسمبلی کے مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دے دیا، جس میں جماعت کی مرکزی قیادت بھی وقتا فوقتا شامل ہوتی رہی ہے۔
کراچی کی آبادی کم دکھائی گئی، حافظ نعیم
جماعت اسلامی کراچی کے حافظ نعیم الرحمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے اور وفاقی حکومت میں شریک تمام جماعتیں کراچی کے ساتھ زیادتی کی ذمہ داری ہیں۔ حافظ نعیم کہتے ہیں،''پیپلز پارٹی کی وڈیرہ ذہنیت نے کراچی کو مفتوحہ علاقہ سمجھ لیا ہے۔ عددی اکثریت کی بنیاد پر مسلسل کراچی کو لوٹا جا رہا ہے، لیکن وفاقی حکومت میں شریک تحریک انصاف اور ایم کیو ایم بھی زیادتی میں برابر کی شریک ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کبھی 162 ارب کے پیکج کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی 11 سو ارب دینے کی بات کرکے بھول جاتے ہیں۔ مردم شماری میں کراچی کی آبادی آدھی کر دی گئی اور وفاقی حکومت میں شریک ان دونوں جماعتوں نے اس متنازعہ مردم شماری کی منظوری دے دی۔ کوٹہ سسٹم جیسے ظالمانہ اقدام میں غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع کر دی گئی ہے۔‘‘
خاموش نہیں رہا جا سکتا
دوسری جانب مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد کہتے ہیں،''پیپلز پارٹی نے پاکستان کو 70 فیصد اور صوبہ کو 95 فیصد کما کر دینے والے شہر کا جو حال کیا ہے اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ کراچی کے نوجوانوں کو کالجوں میں داخلے کے لیے ڈومیسائل دکھانا پڑے اور یہاں کی ملازمت کے لیے اشتہار سندھی اخبارات میں شائع کر کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں کی جائیں گی تو کسے انصاف کا مطالبہ کریں۔"
سندھ حکومت کے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں موجود نا ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی بھی مسلسل احتجاج کر رہی ہیں۔
بلدیاتی قانون ہے کیا؟
بلدیاتی امور کے ماہر صحافی محمد انور کو کہنا ہے کہ بلدیاتی ترمیم ایکٹ 2021 دراصل بلدیاتی نظام کو حکومت کی جانب سے مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کرنے کے سلسلے کا تسلسل ہے، جو ایس ایل جی اے 2001 کے تحت بلدیاتی اداروں خصوصاً سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم کا حاصل اختیارات چھننے کا عمل ہے۔ اس میں پہلی بار بڑی ترمیم 2013 میں کی گئی جس کے تحت وہ تمام محکمے بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیے گئے جو حکومت سندھ کے کنٹرول سے لے کر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے سپرد کردیے گئے تھے۔
بعدازاں 2021 میں بھی مزید ترامیم کرکے تمام بلدیاتی اداروں کو سندھ حکومت کا محتاج کر دیا گیا۔ اصل جھگڑا میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کی حدود کا ہے جو یونین کمیٹیوں کا مجموعہ ہو گا۔