کسانوں کا پاکستان میں دبئی لگا ہے - بلاگ
6 فروری 2021کیا کریں بڑے مجبور ہیں۔ دل لگی کرنے کو اپنا مسئلہ کوئی بچا ہی نہیں۔
فرصت کے ان لمحوں اور جاتی سردی کی شاموں میں ہم ہاتھ تاپ رہے ہیں وہ بھی پڑوس میں لگی آگ سے۔ وہاں بیچارے کسان اور مودی بھکت آپس میں بِھڑ گئے ہیں۔ دو ماہ ہونے کو ہیں، مودی ماننے کو تیار نہیں اور پنجابی کسانوں کے سر پہ سودا ہے تبدیلی کا، تین زرعی قوانین کی تبدیلی۔
خیر سے ہمارے کسان کو کیا لگے کہ سرحد کے اُس پار کیا ہو رہا ہے، اس کا تو پاکستان میں دبئی لگا ہے۔
بھارتی سرکار نے کسانوں کا خانہ خراب کر رکھا ہے، یہاں ہمارا کسان فصل جل جانے پر بھی گھر بیٹھ کر ٹی وی پر سیاسی شو دیکھتا ہے۔ اسے یقین ہے اصلی والے محکمہ زراعت کے بندے بریف کیس میں نوٹوں کی گڈیاں لیے آتے ہی ہوں گے۔
ہمارا زرعی ملک ہے، اس لیے کسانوں کاشتکاروں کو خصوصی مراعات ملی ہوئی ہیں۔ یہ ٹیکس فری لوگ ہیں جنہیں محکمہ زراعت، وزارت معاشیات، محکمہ موسمیات اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا تعاون حاصل ہے۔
فصل لگانے، فصل کاٹنے، فصل کی بہترین اور بر وقت قیمت لگانے اور اسے پکی موٹروے جیسی سڑکوں کے ذریعے عالمی مارکیٹوں تک پہنچانے کا سارا ذمہ ہماری حکومت کا ہے۔ ہماری ریاست کسان کو کبھی خوار نہیں ہونے دیتی۔
چاہے کروڑوں ٹڈیوں کا دل پوری فصل چاٹ جائے، ہمارے باغوں میں درخت کی شاخوں پہ جھولے ڈلے رہتے ہیں۔ مگر سنا ہے ساتھ والے ملک میں غریب کسان بیچارہ آئے روز اپنے ہی کھیت کے کسی کونے میں کھڑے درخت کی شاخ سے جھول جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جب جُرم بھی فینٹسی بن جائے
میں نے بھارتی شہر بنگلورو کی صحافی شریا پاریک کو فون لگایا کہ بہن یہ بھارتی کسانوں کی خودکشیاں کیسی، کیا زرعی قرضے نہیں مل رہے؟ حد تو یہ ہے کہ اب بھارتی کسانوں کی خود کشی کے انڈیکس بنتے ہیں۔ماجرہ کیا ہے؟
شریا پاریک کہنے لگی کہ صرف دوہزار انیس میں دس ہزار سے زائد کسانوں نے خودکشی کی، اس کے پیچھے زرعی قرضوں کا تو بس شور ہے۔ یہاں شہر والوں کو گاڑی کم شرح سود پر زیادہ آسانی سے مل جاتی ہے مگر ایک کسان کو قرض پر ٹریکٹر لینے کے لیے زیادہ سود دینا ہوتا ہے،یعنی مشکل ہی مشکل۔
شریا نے دہلی میں کسانوں کے احتجاج اور خودکشیوں کا پس منظر نہایت تاریک کھینچا۔ کہنے لگی بھارت میں جو کسان پِس رہا ہے وہ ایسا کاشتکار ہے جس کی زمین بھی اپنی نہیں۔ اس سے پہلے کہ چھوٹا کسان اپنی محنت کا پھل کھائے، بڑی بڑی انڈسٹریز اسے پہلے ہی پیڑ سے نوچ لیتی ہیں۔یہ انڈسٹریز کسانوں کی زمینوں تک پہ قابض ہیں۔
شریا بھارت میں کسانوں کو درپیش مسائل کی لمبی فہرست گنوا رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ اسے بتاؤں کہ ہمارے یہاں تو لہلاتے کھیتوں کے مالک وہی کسان ہوتے ہیں جو زمین سینچتے ہیں۔ ہمارا زمیندار، کسان اور مزارع سب مل جل کر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
میں نے سوچا کہ بھی بتایا جائے کہ پاکستان میں زمینوں پر کاشتکاری کرنے والی عورتوں اور مرد کسانوں سے بیگار نہیں لیا جاتا۔ فصل پکتی ہے تو معاوضہ سب میں حساب سے تقسیم ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں چھوٹے کسانوں اور مزارعوں کے بچے آج لیپ ٹاپ لیے بیٹھے ہیں اور جدید فارمنگ پر ریسرچ کررہے ہیں۔
آڑھتیوں کی جرات نہیں کہ وہ دو نمبری کرسکیں، سب کمپوٹرائزڈ سسٹم ہے۔ ہمارے یہاں زراعت آٹومیٹڈ ہے، فصلیں بھی، اجناس بھی اور ان کی قیمتیں بھی، سب ایک دم روبوٹک۔
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومت کب کا سخت ایکشن لے چکی۔ اندازہ کیجیے ہمارے یہاں تو آٹے چینی پر کمیشن تک بن جاتے ہیں۔ بہت سختی ہے جناب!
اللہ کا بڑا کرم ہے ہمارے یہاں چھوٹے موٹے کاشتکاروں کو تو قرضوں کی ضرورت ہی نہیں، وہ ویسے ہی بڑے مال دار ہیں۔ وہ زراعت کے نام پر قرض لینے بھی جائیں تو دینے والوں کو یقین ہی نہیں آتا کہ اتنے خوشحال کسان کو بھلا قرض کی کیا پڑی۔
یہ بھی پڑھیے: ٹیم اچھی نہ ملی تو کیا ہوا، اپوزیشن تو اچھی ملی ہے
کسان مالا مال ہے ، قرض لینے والا کوئی نہیں تو دینے والے کیوں ہوں۔ حکومت پاکستان نے اسی وجہ سے زرعی ترقیاتی بینک کو بھی پرائیویٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ہاں ہمارے یہاں بڑے بڑے ناموں والے شوگر ملز، گندم ملز اور کاٹن فیکٹری مالکان سرکار سے بڑے بڑے قرضے لیتے ہیں جنہیں بوقت ضرورت معاف کردیا جاتا ہے۔ اللہ رے ایسی فلاحی ریاست۔
پاکستان کے چھوٹے کاشتکاروں کی پرشکوہ کوٹھیوں کے باہر دس، دس ٹریکٹر کھڑے ہیں ۔ اسی لیے اب ان کے گھر کی خواتین بھی سودا سلف کے لیے ٹریکٹر ٹرالی نکلوا لیتی ہیں۔
رہ گئے ٹیوب ویل اور کٹنگ مشین وغیرہ کے بجلی کے بھاری بل تو وہ حکومت نے کسانوں کے لیے تاحیات معاف کررکھے ہیں۔ اب ٹڈی دل آئے یا بارش غلط وقت پہ ہو کسان کو کوئی فکر نہیں۔ بھئی ہم زرعی ملک ہیں نا اس لیے ہمارے یہاں کسانوں کی عزت بڑی ہے۔ آخر کو اسی کا اگایا کھاتے ہیں۔
یہ پاکستانی سوشل میڈیا صارف بھارتی کسانوں سے ہمدردی تو کر رہے ہیں، لیکن ہم درد تو وہی ہو سکتا ہے جس کا درد سانجھا ، تکلیف ایک سی ہو۔ ہمیں کیا پتہ کسان کا غم کیا ہوتا ہے ۔ پاکستانی کسانوں کی تو پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہے۔ پیڑوں پر نوٹ لگ رہے ہیں، زمین سونا اگل رہی ہے اور پاکستانی کسان مالا مال، خوشحال بلکہ فارغ البال بیٹھا ہے۔