او آئی سی کی حریت رہنما کو دعوت اور بھارت کا شدید رد عمل
18 مارچ 2022بھارت نے دنیا کے 57 اسلامی ممالک پر مشتمل گروپ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی اس بات کے لیے شدید نکتہ چینی کی ہے کہ اس نے اپنے اجلاس میں کشمیر کے ایک علیحدگی پسند رہنما کو شرکت کی دعوت کیوں دی۔ تنظیم کا اجلاس آئندہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والا ہے اور اس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اس اجلاس میں افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اور جموں و کشمیر کی صورتحال سمیت کئی سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
بھارتی حکومت اس فیصلے سے اس قدر برہم ہے کہ اس نے حریت رہنما کو شدت پسندانہ سرگرمیوں سے مربوط کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلامی تعاون کی تنظیم سے دہشت گردی میں مصروف افراد اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی توقع نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ بھارتی کشمیر کے بیشتر علیحدگی پسند حریت رہنما پر امن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے رہے ہیں اور وہ اس کے لیے تشدد کا راستہ اپنانے کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔
بھارت کا شدید رد عمل
نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان سے جب اسلام آباد میں کے اجلاس میں حریت رہنما کی شرکت سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ''ہم نے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین کو اسلام آباد میں 22-23 مارچ کو تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48ویں اجلاس میں شرکت کے لیے دیے گئے دعوت نامے کے حوالے سے بھارتی میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں۔''
بھارتی ترجمان اریندم باگچی کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی حکومت، ''ایسے اقدامات پر بہت سنجیدہ نظریہ رکھتی ہے، جن کا مقصد ملک کے اتحاد کو
تباہ کرنا ہو، یا پھر جس سے ہماری خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔''
اریندم باگچی نے کہا: ''ہم او آئی سی سے دہشت گردی اور بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد اور تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی توقع نہیں رکھتے۔''
اس طرح کے معاملات کے لیے بھارت عموماً اسلام آباد کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور بھارتی ترجمان نے او آئی سی میں پاکستان کے کردار کی جانب بظاہر اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ او آئی سی دیگر اہم ترقیاتی سرگرمیوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنے ایک رکن کے سیاسی ایجنڈے سے رہنمائی حاصل کر رہی ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم نے کئی بار او آئی سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے مقصد سے بھارت کے اندرونی معاملات پر تبصرے کرنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی اجازت دینے سے گریز کرے۔''
کیا حریت رہنما کو اجلاس میں شرکت کی اجازت ملے گی؟
ماضی میں بھی او آئی سی کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کو اپنے اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت دیتی رہی ہے تاہم بھارت اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین پانچ اگست 2019 سے ہی نظر بند ہیں اور ان کا پاسپورٹ بھی ضبط ہے اس لیے ان کی شرکت کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
میر واعظ کے معتمد اور حریت سے وابستہ سرگرم شخصیت رحمان شمس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا، ''اجلاس میں ان کی شرکت امن و امان کے لیے مزید بہتری ہوتی اور اس سے حالات بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے تاہم وہ تو مسلسل نظر بندی کی سزا جھیل رہے ہیں۔''
ان کا کہنا تھا کہ نظر بندی کے سبب حریت رہنما گزشتہ تقریبا ًچار برسوں سے اپنے تمام منصبی فرائض سے دور رہے۔ ''وہ شہر کی تاریخی مسجد کے خطیب ہیں، اب رمضان سر پر ہے اور ان پر بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ہے اس لیے موقع کی مناسبت سے اب انہیں رہا کر دینا چاہیے۔''
او آئی سی ماضی میں بھی مسئلہ کشمیر کو اپنی سطح پر اٹھاتا رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی اس نے جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارت کے پانچ اگست 2019 کو کیے گئے فیصلوں کو منسوخ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اس تنازعے کو اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نے بھارت کے فیصلے کو "یک طرفہ'' قرار دیا تھا۔
بھارت نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران اپنی معاشی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے متعدد مسلم ممالک سے اچھے تعلقات استوار کیے ہیں اور وہ توقع کرتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر وہ اس کی حمایت کریں۔ اسی لیے بیشتر عرب ممالک اکثر اس معاملے پر خاموش رہتے ہیں تاہم او آئی سی اپنے اجلاسوں میں کشمیر کا ذکر کرتی رہتی ہے۔