کشمیر: مشرق وسطی اور یورپی یونین کے سفارت کار وفد میں نہیں؟
9 جنوری 2020بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سرینگر میں اعلی حکام نے بیرونی ممالک کے سفارتکاروں پر مشتمل سولہ رکنی ایک وفد کا خیر مقدم کیا جو چارٹرڈ فلائٹ سے فوجی ایئر پورٹ پر اترا تھا۔ دو روزہ دورے کے تحت پہلے دن یہ وفد وادی کشمیر میں ہے اور جمعے کے روز جموں پہنچےگا۔
ایئر پورٹ سے اس وفد کو سرینگر کی فوجی چھاؤنی لے جایا گيا جہاں ملٹری حکام نے انہیں کشمیر کی صورت حال کے بارے میں بریفنگ دی۔ اس کے بعد وہ للت ہوٹل پہنچے جہاں انہوں نے پہلے سے موجود مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کشمیری وفود سے تبادلہ خیال کیا۔
اس میں امریکہ کے علاوہ بنگلہ دیش، ویتنام، مالدیپ، جنوبی کوریا، مراکش، اور نائیجیریا جیسے افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کے سفارت کار شامل ہیں۔ وفد میں یوروپی یونین اور مشرق وسطی کے بہت سے ممالک کے سفارت کاروں کے نام بھی شامل تھے لیکن وہ نہیں گئے۔
بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس کے مطابق مشرق وسطی اور یورپی یونین کے سفارت کار اپنی شرطوں پر کشمیر جانا چاہتے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وہ کشمیر پہنچ کر جس سے بھی ملنا چاہیں اس سے ملنے کی اجازت ہو، تاہم حکومت نے جب انہیں اس کی یقین دہانی نہیں کرائی تو وہ اس وفد میں شامل نہیں ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق مشرق وسطی اور یورپ کے سفارت کاروں نے نظر بند کشمیری رہنماؤں سے بھی ملامات کی خواہش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ حکومت کے "گائیڈیڈ ٹور" کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔
حکومت کا موقف ہے کہ یورپی یونین کے تمام سفیر ایک ساتھ کشمیر جانا چاہتے تھے اور اس موقع پر یہ ممکن نہیں تھا۔ حکومت کا یہ بھی دعوی ہے کہ سفیروں پر کوئی پابندی نہیں ہے اور سکیورٹی کے پہلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، وہ جس سے بھی ملنا چاہیں مل سکتے ہیں۔
سرینگر میں مقامی صحافی ظہور حسن کہتے ہیں کہ اس دورے کے پیش نظر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے تاہم انتظامیہ نے شہر سے بہت سی رکاوٹیں اور سکیورٹی چیک پوسٹ ہٹا دی ہیں تاکہ شہر میں سب کچھ نارمل دکھائی دے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، " ہوٹل میں وفد انہی کشمیریوں سے ملاقات کر رہا ہے جنھیں حکومت نے پہلے سے وہاں جمع کر رکھا ہے۔"
سینیئر صحافی اور کشمیر ایڈیٹرز گلڈ کے رکن ہارون رشید کہتے ہیں کہ کشمیری عوام اس سے پوری طرح لاتعلق ہے، "چونکہ انھیں معلوم ہے کہ بھارت کی شبیہ بہتر کرنے لیے حکومت کی یہ پی آر مشق ہے اور اس سے کشمیر کی زمینی صورت حال بہتر ہونے والی نہیں اس لیے کشمیری اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔"
کشمیر میں کمیونسٹ پارٹی کے سرکردہ رہنما یوسف تاریگامی، جو نظر بندی کے بعد حال ہی میں رہا ہوئے، کہتے ہیں کہ اس طرح کے دوروں کے بجائے اگر حکومت کشمیریوں کے بنیادی حقوق بحال کر دیتی تو بہتر ہوتا۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "راہول گاندھی جیسے بھارتی قومی رہنما کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں تو بیرونی ممالک کے سفارت کاروں کو لانے کا مقصد کیا ہے۔‘‘
گزشتہ اکتوبر میں بھارتی حکومت نے یورپی یونین کے تقریبا دورجن ارکان پارلیمان کو کشمیر کا دورہ کروایا تھا۔ اس گروپ میں بیشتر ارکان کا تعلق سخت گیر دائیں بازو کی جماعتوں سے تھا۔ انہیں کشمیر سیاحوں کی طرح لے جایا گيا اور سول سوسائٹی سے بھی ملنے نہیں دیا گيا، جس کے بعد حکومت پر سخت نکتہ چینی ہوئی تھی۔
کئی حلقوں کی طرف سے سوالات اٹھائے گئے کہ جب ریاست کے کئی بڑے رہنما قید میں ہیں، کشمیری ارکان پارلیمان نظر بند ہیں اور خود کشمیریوں کو نقل و حرکت کی اجازت نہیں تو باہر کے ارکان پارلیمان کے دورہٴ کشمیر کا کیا مقصد تھا۔ نکتہ چینی اتنی زیادہ ہوئی کہ یورپی یونین کو ایک وضاحتی بیان میں کہنا پڑا کہ تمام ارکان اپنی ذاتی حیثیت میں کشمیر گئے تھے اور وہ کسی ملک کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔