1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر پر امریکی سینیٹرز کا نیا مکتوب

13 فروری 2020

ایک ایسے وقت جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر آنے والے ہیں کئی سرکردہ امریکی سینیٹرز نے کشمیر کی صورت حال اور شہریت کے ترمیمی قانون پرگہری تشیوش کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3XiKX
Indien Polizei Polizist mit Waffe
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے نام اپنے مکتوب میں چار سرکردہ سینیٹرز نے کشمیر کی صورت حال اور شہریت ترمیمی ایکٹ پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بھارت کا سیکولر کردار خطرے میں ہے‘‘۔ اس خط میں کشمیر کی صورت حال کو پریشان کن بتاتے ہوئے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گيا ہے کہ وہ آئندہ 30 روز کے اندر کشمیر اور شہریت سے متعلق نئے قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس پر اپنی رپورٹ تیار کرے۔

یہ خط دو ڈیموکریٹ ارکان پارلیمان کرس وین ہولین، ڈک ڈربن اور دو ریپبلکنز لنڈسے گراہم، اور ٹوڈ ینگ نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔ سینیٹر لنڈسےگراہم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔اس میں کہا گيا ہے کہ مودی کے اقدام سے ’’مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور بھارت کے سیکولر کردار کو خطرہ لاحق ہوگيا ہے‘‘۔

بھارت نےگزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وہاں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی تھیں اور سرکردہ رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتا رکر لیا گیا تھا۔

Protest Indien Regierung
بھارت میں شہریت سے متعلق نئے قانون میں پڑوسی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کا وعدہ کیا گيا ہے تاہم مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گيا جس کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیںتصویر: MohsinJaved

اس خط میں کہا گيا ہے، ’’بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے یک طرفہ طور پر جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد، وہاں چھ ماہ سے بھی زیادہ وقفے سے بیشترعلاقوں میں انٹرنیٹ پر پابندی جاری ہے۔ جمہوریت میں بھارت کی جانب سے انٹرنیٹ پر پابندی کی یہ سب سے طویل دورانیہ ہے جس سے 70 لاکھ لوگوں کی طبی سہولیات، ان کاروبار اور تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کئی بڑے سیاسی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کشمیری اب بھی احتیاطی حراست میں ہیں۔‘‘

سینیٹرز نے امریکی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر میں مجموعی طور پرگرفتار کیےگئے افراد کی تعداد، دوران حراست ان پر تشدد یا پھر ان کے ساتھ نازیبا سلوک جیسے امور کا تجزیہ کرے۔ کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ پر پابندی اور بیرونی سفارت کاروں، صحافیوں اور مبصرین پر کس طرح کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور کشمیر میں مذہبی آزادی کی صورت حال کیا ہے، ان پہلوؤں پر بھی تجزیہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس مکتوب میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی پر بھی گہرے خدشات و شبہات کا اظہار کیا گيا ہے اور امریکی انتظامیہ سے اس کا بھی جائزہ لینے کو کہا گيا ہے، ’’شہریت سے متعلق قانون کے نفاذ سے خاص طور پر مذہبی اور نسلی اقلیتوں میں سے کتنی بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوں گے۔ جو لوگ اس قانون کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں کیا ان کے خلاف بھارتی حکام کی جانب سے طاقت کا بےجا استعمال کیا گيا ہے؟ نیشنل رجسٹر فار سٹیزن کے نفاذ سے کتنے لوگوں کے شہریت سے محروم ہونے خطرہ ہے؟‘‘

سینیٹرز نے لکھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر تیزی سے کام کیا ہے۔ اس سے لوگوں میں اس بات کے لیے بےچینی پیدا ہوئی ہے کہ بھارت کا بطور ایک سیکولر جمہوریت کردار خطرے میں ہے۔

امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ اس ماہ کی 24 تاریخ کو بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی آبائی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں ان کے استقبال کے لیے ایک بہت عظیم استقبالیہ تقریب کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وہ بھارت کے دورے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ص ز / ا ب ا (خبر رساں ادارے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں