1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر پر چینی موقف اور بھارت کی پریشانی

10 اکتوبر 2019

چین کے صدر اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان جمعہ گیارہ اکتوبر کو بھارت کے شہر چنئی میں ملاقات ہو گی۔ اس ملاقات سے قبل چینی صدر نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی کشمیر کی صورت حال پر اُن کے بیانیے کی حمایت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3R1ZS
China - Narendra Modi und Xi Jinping
تصویر: Reuters/Handout

پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حالیہ چینی دورے کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ چین ایسے یک طرفہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے، جن سے کشمیر کی صورت حال مزید پیچیدہ ہونے کے امکانات ہوں اور تنازعے کے حوالے سے فریقین اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اور سکیورٹی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں بشمول باہمی معاہدات کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کریں۔

دوسری جانب اس کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ جموں اور کشمیر پر بھارتی پالیسی میں تسلسل ہے اور یہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس بیان میں نئی دہلی حکومت نے چین سے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن سے آگاہ رہے اور دوسرے ممالک کو بھارت کے داخلی معاملات میں مداخت کا کوئی حق نہیں ہے۔

China Peking Imran Khan trifft Xi Jinping
اکتوبر سن میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے چین کا تیسرا دورہ مکمل کیا تھاتصویر: picture-alliance/AA/Pakistan Prime Ministry Office

یہ امر اہم ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان دو طرفہ تعلقات آزمائشی صورت حال سے دوچار ہیں اور کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے پیدا ہونے والے حالات پر بیجنگ حکومت سفارتی سطح پر اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کی حمایت کرتی ہے۔ خیلا کیا جاتا ہے کہ چین کی یہ حمایت بھی بھارت کے ساتھ اُس کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ رواں برس اگست میں چین نے بھارت کے لیے جاری کردہ ایک سخت بیان میں واضح کیا تھا کہ نئی دہلی حکومت مسلسل اُس کی جغرافیائی خود مختاری کو کم اہمیت دیتی ہے اور اس کی ایک مثال ملکی قانون میں تبدیلی ہے۔ چین کا اشارہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کی جانب ہے، جو پانچ اگست کو کی گئی تھی۔

چین، بھارت کے زیر انتظام لداخ کے بعض حصوں پر اپنا حق  جتلاتا ہے۔ لداخ سے تبت تک بھارت اور چین کی سنگلاخ سرحد دونوں ملکوں کی مسلسل عسکری نگرانی میں ہے۔ دوسری جانب بھارتی دعویٰ بھی ہے کہ چین لداخ کے بعض حصوں کو اپنی جغرافیائی حدود میں شامل کیے ہوئے ہے اور یہ بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔

Indisch-Chinesische Grenze Grenzpass
چین اور بھارتی سرحد پر چینی جھنڈے کا حامل بورڈ اور فوجی اہلکارتصویر: Getty Images

چینی دارالحکومت کے علاقے ہائیڈیان میں واقع عالمی شہرت کی حامل رینمِن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی سیاست سے منسلک اسکالر چینگ شیاؤے کا کہنٓا ہے کہ کشمیر کی صورت حال پر چین کی ہمدردیاں اور حمایت پاکستان کے ساتھ ہیں اور اس باعث چینی و بھارتی دو طرفہ تعلقات بہت نازک ہو چکے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کا مختلف ملکوں میں جاری ترقیاتی پراجیکٹ 'ون بیلٹ ون روڈ انیشیئٹیو‘ پاکستان میں بھی جاری ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مکمل کیا جائے گا۔ بھارت پاکستانی کے زیرانتظام کشمیر پر بھی اپنا حق جتاتا ہے۔

خیال رہے کے چینی و بھارتی لداخی سرحدی علاقے میں رواں برس ستمبر میں فوجی ہلچل دیکھی گئی تھی۔ اس  سے پہلے اگست سن 2017 میں بھی چین اور بھوٹان کی سرحد کے نزدیک ڈوکلام سطح مرتفع پر چینی و بھارتی فوجیں آمنے سامنے آ گئی تھیں۔

ع ح ⁄ ک م (اے ایف پی)