کشمیر کی آزادی کے علمبردار حریت رہنما سید علی گیلانی چل بسے
2 ستمبر 2021ان کی وفات کی اطلاع ملتے ہی بھارتی حکام نے وادی کشمیر میں الرٹ جاری کر دیا۔ اس وقت کشمیر میں ہر طرف زبردست فوج اور نیم فوجی دستوں کا پہرہ ہے۔ فون، انٹرنیٹ اور آمد و رفت پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
سید علی گیلانی کی دیرینہ خواہش تھی کہ انہیں سرینگر میں واقع قبرستان شہداء میں دفن کیا جائے تاہم اطلاعات کے مطابق حکام نے اس خدشے کے پیش نظر کہ کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہو سکتی ہے، جس سے سکیورٹی کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا، فجر کی نماز کے وقت ہی انہیں گھر کے قریب واقع حیدر پورہ کے قبرستان میں خاموشی سے دفن کردیا گیا۔
حالات سے باخبر ایک شخص کے مطابق ان کے جنازے میں ان کے بیٹوں سمیت تقریبا ًپچاس افراد ہی شریک ہو پائے۔
سید علی گیلانی گزشتہ تقریبا دس برسوں سے نظر بند تھے اور حکومت نے ان کی تمام سرگرمیوں کو بند کر رکھا تھا۔ ان کے انتقال کا یہ سانحہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب ان کی تنظیم کے بیشتر رہنما بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔
سید علی گیلانی زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں سرگرم تھے اور ابتدا میں انہوں نے انتخابات میں بھی حصہ لیا اور کامیابی بھی حاصل کی۔ وہ ریاستی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی کشمیر کے اہم رہنماوں سے ایک تھے۔
وہ کشمیری کی تحریک آزادی سے پوری زندگی وابستہ رہے۔ گزشتہ تقریبا ًپچاس برس سے وہ اس جد و جہد میں شامل تھے اور کشمیر میں وہ بھارت مخالف مزاحت کا چہرہ بن کر ابھرے۔ تاہم ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بھارتی جیلوں کی قید و بند میں گزرا۔
پاکستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق کے وہ سب سے بڑے حامی تھے اور آخری دم تک اپنے اس موقف پر قائم رہے۔ تاہم وہ اس کے لیے جمہوری طریقہ کار کے بھی قائل تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس کا فیصلہ کشمیری عوام کو استصواب رائے سے کرنا ہے۔
گزشتہ برس بعض اختلافات کے سبب انہوں نے حریت کانفرنس کی قیادت سے استعفی دے دیا تھا۔ حریت سے کناہ کشی کے باوجود بھی انہوں نے اس وقت اپنے ایک پیغام میں کہا تھا، "اس دیار فانی سے وفات تک میں بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا اورحسب استطاعت اپنی قوم کی رہنمائی کا حق ادا کرتا رہوں گا۔"
اس کے بعد حریت کی قیادت ان کے قریبی دوست محمد اشرف صحرائی کو سونپی گئی۔ بھارتی حکومت نے اشرف صحرائی کو بھی جیل میں ڈال دیا تھا اورچند ماہ قبل جیل میں ہی ان کی وفات ہوگئی۔
بھارتی کشمیر میں حریت کانفرنس کے اثر و رسوخ کا عالم یہ ہے کہ ان کی ایک کال پر پورا کشمیر ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے، تاہم دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ہی اس کے تمام رہنما جیلوں میں بند کردیے گئے ہیں اور قیادت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایسی صورت حال میں سید علی شاہ گیلانی کی وفات تنظیم کے لیے جہاں ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہے اورکشمیر کی جد و جہد آزادی بھی ماند پڑ سکتی ہے۔
سید علی شاہ گیلانی کی وفات پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور کشمیر کے بیشتر رہنماؤں سمیت دیگر شخصیات نے گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''کشمیر کی آزادی کے مجاہد سید علی شاہ گیلانی کے انتقال کی خبر پر بہت افسوس ہوا، جنہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے لوگوں اور ان کے حق خود ارادیت کے لیے وقف کر دی۔ قابض بھارتی ریاست نے قید و بند کے دوران انہیں بڑی اذیتیں دیں، تاہم وہ پرعزم رہے۔''
وادی کشمیر کے ایک سینیئر پولیس افسر وجئے کمار نے تصدیق کی ہے کہ گیلانی کی وفات کے تناظر میں فون اور انٹر نیٹ سروسز کو تا حکم ثانی معطل کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق بیشتر علاقوں میں سکیورٹی کو بھی سخت کر دیا گیا ہے۔ اس وقت سرینگر کی جانب آنے والے تمام علاقوں پر نیم فوجی دستوں کا پہرہ ہے اور جگہ جگہ نصب چیک پوسٹوں پر لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ حکام نے وادی کشمیر کے مختلف مقامات پر حریت کے بعض فعال کارکنوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔
سرینگر میں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کی جانب جانے والی تمام راستے بند کر دیے گیے ہیں اور اطلاعات کے مطابق کسی کو بھی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ وادی کشمیر کے تقریبا سبھی راستوں پر اس وقت بکتر بند گاڑیاں گشت کر رہی ہیں۔ تاہم اطلاعات کے مطابق اس طرح کی سخت بندشوں کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور بعض علاقوں میں لوگوں نے مساجد میں جمع ہو کر بھارت مخالف اور کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے بازی بھی کی ہے۔
گیلانی ستمبر کی 29 تاریخ کو سن 1929 میں وولر جھیل کی آغوش میں بسے ایک گاؤں زورمنز میں پیدا ہوئے تھے۔ اور ان کی وراثت یہ ہے
کہ کشمیر کے مسئلے پر انہوں نے کبھی نرم رویہ اختیار نہیں کیا اور ابتداتا آخر اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔
یہی وجہ سے کہ جب جنرل مشرف نے اس کے حل کے لیے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا تو گیلانی ہی ایک واحد ایسے کشمیری رہنما تھے جنہوں نے اس کی بھی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ بالآخر کشمیری عوام کو کرنا ہے۔