کشمیر کی ہندو برادری انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرعزم
16 ستمبر 2024دیو راج کو 77 سال بعد ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملا ہے، جس پر وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے شکر گزار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں خوشی سے اپنا ووٹ نریندر مودی کو دوں گا۔‘‘
2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ ہونے والا یہ انتخابی عمل تین مرحلوں پر مشتمل ہو گا۔ جس میں 8.7 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔
دیو راج کی عمر 90 سال ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے فسادات کے دوران اپنی جانیں بچا کر بھارت کے زیر انتظام کشمیر آنے والے تقریباﹰﹰ 5700 ہندو خاندانوں کے ساتھ یہیں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان خاندانوں کی موجودہ نسلوں کے تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ افراد کو ’’مغربی پاکستان کے مہاجرین (ڈبلیو پی آر)‘‘ کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔
انہیں بھارت کے شہریوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہیں عام انتخابات میں ووٹ کا حق بھی حاصل ہے۔
کشمیر کی خصوصی جزوی خودمختار حیثیت کے تحت صرف انہی افراد کو ووٹ ڈالنے اور اس علاقے میں جائیداد خریدنے کا حق حاصل تھا، جن کے آباؤ اجداد 1934 سے وہاں مقیم تھے۔ تاہم 2019 میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد اس علاقے کا انتظام براہ راست بھارتی وفاقی حکومت کو منتقل ہوگیا تھا۔
کشمیر کے علیحدگی پسند ان انتخابات کو کشمیر پر بھارتی حکومت کے کنٹرول کی توثیق کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
ناقدین کی رائے میں 90 نشستوں پر مشتمل اس اسمبلی کے پاس صرف تعلیمی اور ثقافتی امور پر محدود اختیارات ہوں گے۔ گورنر کی تقرری سمیت دیگر اہم فیصلے اب بھی نئی دہلی سے ہی کیے جائیں گے۔
کشمیر کے ایک اور رہائشی 89 سالہ سرداری لال کے لیے یہ جشن کا موقع ہے۔ ان کی عمر 12 سال تھی، جب ان کے خاندان نے 1947 میں جموں کے جنوبی ضلع میں پناہ لی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے حق کی ہمیشہ قدر کریں گے۔
سرداری لال کے ذہن میں اب بھی تقسیمِ ہند کی خوفناک یادیں تازہ ہے۔ جس کے بعد انہوں نے شدید غربت کے دور میں ’’پتے کھا کر گزارہ کیا تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا ’’میرے پوتے پوتیاں اب اچھی زندگی گزاریں گے۔ انہیں ہماری طرح نہیں جینا پڑے گا۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے مغربی پاکستان کے مہاجرین کو مکمل حقوق نہیں دیے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے علاقے کا آبادیاتی توازن متاثر ہو جائے گا۔ تاہم مودی حکومت نے بھارت کے دیگر حصوں سے لوگوں کو کشمیر میں آکر بسنے کی ترغیب دی ہے بالخصوص جموں ضلع میں جہاں پہلے ہی ہندو اکثریت موجود ہے۔
تاہم ان مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن لبھا رام گاندھی نے کہا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا ہے، ’’بی جے پی توقع کرتی ہے کہ چونکہ انہوں نے ہمیں شہریت کے مکمل حقوق دیے ہیں، ہم انہیں ووٹ دیں گے لیکن ان کی پارٹی نے ہم میں سے کسی کو بھی انتخابی ٹکٹ نہیں دیا۔‘‘
گاندھی نے کہا کہ وہ صرف انہی امیدواروں کو ووٹ دیں گے جو انہیں اس زمین کی قانونی ملکیت حاصل کرنے میں مدد کریں گے، جس پر وہ رہائش پذیر ہیں۔
ڈبلیو پی آر گروپ اتنا بڑا نہیں ہے کہ وہ رائے شماری کے نتائج کو نمایاں طور پر تبدیل کر سکے۔ تاہم تبصرہ نگاروں کی رائے ہے کہ ان کے ووٹ ہندو ووٹروں کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں بی جے پی کے لیے اہم ہیں۔
ڈبلیو پی آر کی ایکشن کمیٹی کے عہدیدار، شمشیر سنگھ نے کہا، ’’ہم سب 100 فیصد ووٹ دیں گے۔‘‘
ح ف / ش ر (اے ایف پی)