کشمیر: یاسین ملک کی عمر قید کے خلاف احتجاجی ہڑتال اور مظاہرے
25 مئی 2022کشمیر کی آزادی کے حامی معروف سیاسی رہنما یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر نوجوانوں اور خواتین نے آزادی اور علٰحیدگی پسند رہنما کے حق میں جم کر نعرے بازی بھی کی۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کی عدالت نے چھپن سالہ یاسین ملک کو مختلف کیسوں میں مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔ پہلے توقع یہ تھی کہ عدالت کا فیصلہ دن کے ساڑھے بارہ بجے سنایا جائے گا لیکن اس فیصلے میں چھ گھنٹے کی تاخیر ہوئی اور بالآخر یاسین ملک کو کشمیر میں ''دہشت گردی کے لیے چندہ جمع کرنے اور کشمیر میں بھارت مخالف مہم اور افراتفری پھیلانے‘‘ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
بھارتی عدالت نے انہیں انسداد دہشت گردی 'یو اے پی اے‘ اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات 120B اور 124A کے تحت عمر قید کی سزا سنائی۔ ان پر دس لاکھ روپے کا جرمانہ بھی ہوا۔
’علٰیحدگی پسند جذبات کو بڑھاوا ملے گا‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی جماعتوں کے نئے اتحاد 'پیپلز ایلائنس فار گپکار ڈکلریشن‘ نے یاسین ملک کی عمر قید کی سزا کو ''امن کی کاوشوں کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا۔‘‘
گپکار اتحاد کے ترجمان اعلیٰ اور کمیونسٹ لیڈر یوسف تاریگامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں خدشہ ہے کہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک کی سزا سے خطے کے حالات مزید ابتر ہوں گے اور ان میں مزید پیچیدگیاں پیش آئیں گی۔ عدالت کے اس فیصلے سے کشمیر میں علٰیحدگی پسند جذبات کو بڑھاوا ملے گا۔‘‘
اسی طرح پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما نجم ثاقب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ یاسین ملک کو سزا دینے کا فیصلہ، ''افہام و تفہیم کی پالیسی کے کفن پر آخری کیل ثابت ہوگا۔‘‘ نجم ثاقب کا مزید کہنا تھا کہ ''بھارت بھر میں یاسین ملک کی جانب سے بندوق اور تشدد کا راستہ ترک کرکے عدم تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے فیصلے کی ستائش کی گئی تھی اور ان کی جدوجہد کا موازنہ گاندھی کی جدوجہد سے کیے جانے لگا تھا۔ وہ لگ بھگ بیس برس تک اپنے ہی گھر میں نظر بند رہے۔ یاسین ملک کو عمر قید کی سزا دینے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کشمیر کے حالات کو مزید بگاڑنا چاہتی ہے تاکہ یہاں انتخابات نہ ہوں۔‘‘
کشمیری علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے کیس پر قریبی نظر ہے، برطانوی حکومت
بھارت: عدالت نے کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو قصوروار قرار دے دیا
مظاہرے نعرے بازی اور آنسو گیس کے گولے
جس وقت بھارت کی پٹیالہ عدالت میں ملک کے کیس کی شنوائی ہو رہی تھی اس وقت سری نگر میں اس علٰیحدگی پسند رہنما کے گھر پر ان کی ہمشیرہ کھڑکی سے باہر آئیں۔ انہیں قران کی تلاوت کرتے دیکھا گیا۔ ٹھیک اسی وقت خواتین وہاں جمع ہوئیں اور کشمیر اور ملک کے حق میں نعرے بازی کرنے لگیں اور پھر نوجوانوں کے ایک گروہ نے وہاں موجود بھارتی فوجیوں پر پتھراؤ بھی کیا۔ مقامی پولیس اور بھارت کے نیم فوجی دستوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے کئی گولے داغے۔
ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سہے جموں و کشمیر کے لیے منتخب لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ نے احتیاطی طورپر بھاری تعداد میں نیم فوجی دستوں اور مقامی پولیس کے اہلکاروں کو یاسین ملک کی رہائش گاہ کے باہر پہلے ہی تعینات کر رکھا تھا۔
کشمیر کے پائین شہر میں متعدد شہریوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتظامیہ نے انٹرنیٹ کی سہولیات معطل کردی ہیں۔
ملک نے عدالت میں کیا کہا؟
بھارت کی تفتیشی ایجنسی نے پٹیالہ کورٹ سے یاسین ملک کو پھانسی کی سزا سنانے کی درخواست کی تھی تاہم ملک نے عدالت کے سامنے کہا،''میں آپ سے رعایت کی بھیک نہیں مانگوں گا، اگر آزادی اور انصاف کی جدوجہد جرم ہے تو میں مجرم ہوں۔ آپ جو فیصلہ دیں مجھے منظور ہے۔‘‘
’’میں نے گاندھی کا راستہ اپنایا تشدد کا نہیں‘‘
یاسین ملک نے عدالت میں اپنے دفاع میں صرف اتنا کہا کہ انہوں نے لبریشن فرنٹ نامی عسکری تنظیم کے سربراہ کی حیثیت سے انیس سو چرانوے میں مسلح جدوجہد کو خیرباد کہہ کر مہاتما گاندھی کا راستہ اختیار کیا اور کشمیر کی آزادی کے لیے پرامن جدوجہد کا آغاز کیا جس کی دنیا بھر میں ستائش ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ دہشت گرد ہوتے تو بھارت کے سابق سیاسی رہنما من موہن سنگھ اور اٹل بہاری واجپائی ان سے ملاقاتیں نہیں کرتے اور بھارت سے باہر جانے کے لیے انہیں سفری دستاویزات فراہم نہیں کی جاتیں۔
یاسین ملک پر الزامات
بھارتی حکومت اور تفتیشی ایجنسی نے یاسین ملک پر متعدد الزامات عائد کیے ہیں جن میں سن دو ہزار سترہ میں کشمیر میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے، شدت پسندی کو ہوا دینے اور اس کے لیے چندہ جمع کرنے اور بھارت مخالف مہم چلانا شامل ہیں۔ ان کے خلاف یہ چارجز رواں برس مارچ میں لگائے گئے تاہم وہ گزشتہ چار برسوں سے بھارتی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے پاکستانی دورے کے دوران لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید سے ملاقات کی اور کشمیر کے اندر اور بیرونی ممالک میں انہوں نے کشمیر میں جاری بھارت مخالف مہم کے لیے پیسے بھی اکھٹے کیے۔
بھارت کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کے مطابق یاسین ملک نے متعدد مرتبہ لبریشن فرنٹ کے رہنما کے بطور بھارت مخالف احتجاجی ہڑتالوں کی کال بھی دی اور امن و امان میں رخنہ ڈالا۔
یاسین ملک کون ہیں؟
کشمیر میں انیس سو ستاسی کے اسمبلی انتخابات کے دوران نوجوان یاسین ملک محمد یوسف شاہ المعروف صلاح الدین کے پولننگ ایجنٹ تھے۔ اس وقت محمد یوسف شاہ مسلم متحدہ محاذ کے امیدوار کے بطور انتخابات لڑ رہے تھے اور پھر وہ ممنوعہ عسکری تنظیم حزب المجاہدین اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ بنے۔
تاریخ دانوں کے مطابق ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئیں اور نیشنل کانفرنس کو کامیاب قرار دیا گیا جس کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر تناؤ پیدا ہوا۔ بعد ازاں یاسین ملک آزادی کی حامی لبریشن فرنٹ نامی تنظیم کے چیف کمانڈر بنے اور سن انیس سو چرانوے میں انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔
انہوں نے اپنی سفر آزادی نامی مہم کے دوران پندرہ لاکھ سے بھی زائد کشمیریوں کے دستخط جمع کیے اور انہیں ایک کمپیکٹ ڈسک کی صورت میں بھارت کے اعلیٰ عہدے داروں اور مختلف سفارت خانوں کو پیش کیا۔ اس مہم کا مقصد کشمیر تنازع کے حل کے لیے کشمیری عوام کی براہ راست شمولیت تھا۔