کشمیری رہنماؤں نے منموہن کی پیش کش مسترد کردی
12 اگست 2010انہوں نے منگل کو کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’امن کو ایک موقع دیں۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت سیاسی خودمختاری کے لئے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی متفقہ تجویز پر غور کرے گی۔
تاہم کشمیری علیحدگی پسند رہنماؤں نے من موہن سنگھ کی یہ پیش کش یکسر مسترد کر دی ہے۔ علیحدگی پسند رہنما جاوید میر کا کہنا ہے، ’ہم پوری آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں، خود مختاری کا نہیں۔ اس مقصد کے لئے ہم امن پسند طریقے سے احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
دوسری جانب میر واعظ عمر فاروق کا کہنا ہے، ’ہماری جدوجہد خودمختاری کی بحالی کے لئے نہیں، بلکہ اس کا مقصد حق خودارادیت کا حصول ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’ہمیں یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہئے کہ ہم بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ، یا پھر علیحدہ ریاست چاہتے ہیں۔‘
کشمیر کی اسمبلی نے کچھ سال پہلے خود مختاری کے سلسلے میں ایک بل پاس کیا تھا ، جسے اس وقت کی بی جے پی کی مرکزی حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
دوسری جانب منموہن سنگھ کے بیان پر بھی بی جی پی نے اعتراض کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیر کو بھارت کا حصہ رکھنے کی پالیسی قائم نہیں رہے گی۔ بی جے پی کے رہنما روی شنکر پرشاد نے کہا، ’ہم کشمیر کو آزادی دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم اسے بھارت سے الگ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ خود مختاری ایک درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔’
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ اس حوالے سے وضاحت پیش کریں۔ بی جے پی نے کہا کہ منموہن سنگھ خود مختاری کا مطلب بتائیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عابد حسین