کلیسا کا ساتھ نہ چھوڑیں، پوپ بینیڈکٹ کی اپیل
22 ستمبر 2011سن 2005 میں مسیحیوں کے پیشوا بننے والے جوزف راٹسنگر تیسری مرتبہ جرمنی آئے ہیں۔ پوپ کے اس دورے کا نام ’جہاں خدا ہے، وہی مستقبل ہے‘ رکھا گیا ہے۔
برلن پہنچنے پر پوپ بینیڈکٹ کا استقبال بندوقوں کی سلامی اور فوجی موسیقی کے ساتھ وفاقی جرمن صدر کرسٹیان وولف نے کیا۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا کے استقبال کے لیے چھ سو کے قریب خصوصی مہمانوں کے علاوہ ان کے لاکھوں عقیدت مند جرمن دارالحکومت میں موجود تھے۔ پوپ بینیڈکٹ ویسے تو تیسری مرتبہ جرمنی پہنچے ہیں تاہم سرکاری اور باقاعدہ طور پر یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔
پوپ بینیڈکٹ نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بھی ایک خصوصی ملاقات کی ہے۔ ایک بیان کے مطابق کئی دوسرے موضوعات کے علاوہ اس میں یورپ کے معاشی بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا آج جرمن پارلیمان سے بھی خطاب کریں گے۔ پوپ بینیڈکٹ کی برلن آمد کے بارے میں جرمن کیتھولک بشپ کانفرنس کے سربراہ Robert Zollitsch کا کہنا ہے، ’’ہمیں خوشی ہے کہ پوپ بینیڈکٹ باقاعدہ طور پر جرمنی کا دورہ کر رہے ہیں اور ہم انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘
لیکن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پوپ بنیڈکٹ کو ہر کوئی خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جرمن پارلیمان کے ایک سو کے قریب اراکین، جن کا مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق ہے، پارلیمنٹ میں پوپ کی تقریر کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان اراکین کے خیال میں ایک مذہبی رہنما کو پارلیمنٹ میں نہیں آنا چاہیے۔ جرمنی کی ایک سیاسی جماعت گرین پارٹی کے ایک رکنِ پارلیمان ہنس کرسٹیان شٹروئبلے کا کہنا ہے، ’’اگر آج مذہبی اور چرچ کمیونٹی کے رہنماؤں کو پارلیمنٹ میں بلایا جا رہا ہے تو اس آغاز کا انجام کیا ہوگا۔‘‘
چوراسی سالہ پوپ بینیڈکٹ کی جرمنی آمد پر ہزاروں لوگ مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ مظاہرہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے کیتھولک پادریوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ اس مظاہرے کے منتظمین کے مطابق 20 ہزار سے زائد افراد اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس مظاہرے میں ہم جنس پرستی کے حق میں کام کرنے والی تنظیمیں بھی شریک ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جنسی زیادتی کے اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ برس ایک لاکھ اسی ہزار کے قریب جرمن کیتھولک عیسائیوں نے یہ فرقہ چھوڑ دیا۔ تاہم پوپ بینیڈکٹ نے کیتھولک فرقہ نہ چھوڑنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ گندی مچھلیاں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: حماد کیانی