کم عمر ’شہید‘: یمن میں کم عمر فوجیوں کی بھرتی
18 جولائی 2021اس طرح کے کئی ایک نام نہاد 'سمر کیمپس‘ میں شرکت کے بعد سمیر میں یہ خواہش جاگ اٹھی کہ اسے حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر یمنی خانہ جنگی میں شریک ہونا چاہیے۔
ان کیمپوں کے تربیتی مراحل کے دوران 15 سال سمیر نے حوثی باغیوں کو یمنی حکومت کے بارے میں اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے سنا۔ ساتھ ہی مذہبی رہنما، زیر تربیت نوجوانوں کو جہاد کی اہمیت کے بارے میں بھی بتاتے اور اس بات کی ضرورت کے بارے میں بھی کہ وہ کیوں اپنے وطن کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے کہ عالمی طور پر منظور شدہ یمنی حکومت کے خلاف ان کی لڑائی میں خدا کی رضا شامل ہے۔
اس سب حوصلہ افزائی اور حق پر ہونے کے یقین کے بعد سمیر میں کم عمری کے باوجود لڑائی میں شرکت کرنے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
سمیر کی والدہ اور والد نے اپنے بیٹے کی سمر کیمپ میں شرکت کو تو برداشت کر لیا مگر جب سمیر نے انہیں بتایا کہ وہ لڑائی میں شریک ہونا چاہتا ہے، تو اس کے والد کے مطابق خاندان نے اس کی اس خواہش کی شدید مخالفت کی۔ سمیر کے والد اپنا اصل نام دینا نہیں چاہتے تھے۔
تاہم سمیر کی ضد کے سامنے آخر کار وہ ہار گئے۔ وہ یہ بات مانتے ہیں کہ اس اجازت دینے کے پیچھے کسی حد تک یہ حقیقت بھی پنہاں تھی کہ سمیر کو بطور فوجی پیسے ملیں گے اور باقاعدگی سے ہر مہینے اپنے خاندان کو پیسے بھیجے گا، جس کی یمن کے طویل بحران کے سبب اس خاندان کو از حد ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ ہر چند مہینے کے بعد اپنے خاندان سے ملنے کے لیے واپس بھی آ سکتا تھا۔
میت کی واپسی
پھر ایک دن خوفناک خبر ملی۔ سمیر مارا گیا تھا۔ یہ ٹین ایجر لڑائی کے دوران مارا گیا تھا اور حوثی باغیوں کے دیگر ارکان اس کی میت کو اس کے خاندان تک پہنچانے آئے تھے۔ زندگی سے عاری سمیر کے ماتھے پر ایک کپڑا بندھا ہوا تھا جس پر تحریر تھا 'شہید‘۔
یمنی دارالحکومت صنعاء کے اس علاقے میں صرف سمیر کا خاندان ہی ایسا واحد خاندان نہیں ہے جسے ایسی خبر ملی۔ اسی علاقے کے تین مزید لڑکے بھی جن کی عمریں 15 اور 16 سال تھیں وہ بھی لڑائی میں مارے گئے۔ عماد، یوسف اور محمد، بمباری کے دوران مارے گئے اور ان کے جسم کے باقی ماندہ جو حصے بھی بچے وہ ان کے ساتھی جنگجوؤں نے ان کے گھر والوں تک پہنچا دیے۔
کم عمر بچوں کو بھرتی کرنا بلا شک و شبہ انسانی حقوق کی ان سخت ترین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے جو یمن کی خانہ جنگی میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
رواں برس مئی میں بچے اور مسلح تنازعات کے موضوع پر اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2020ء کے دوران 211 بچوں کو یمنی جنگ میں لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔ ان میں سے 134 لڑکوں اور 29 لڑکیوں کو حوثی باغیوں نے بھرتی کیا۔
حوثی باغیوں نے یہ کہتے ہوئے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے خلاف اپنا دفاع کیا کہ یہ رپورٹ ان کے دشمنوں، امریکا اور خلیجی ریاستوں نے تیار کی ہے۔
دونوں فریق نوعمر فوجیوں کی بھرتی کے ذمہ دار
لیکن یہ صرف حوثی باغی ہی نہیں ہیں جو بچوں کو بطور فوجی بھرتی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یمنی فوج میں بھی 34 کم عمر فوجی شامل تھے۔ 14 دیگر بچے یمنی خانہ جنگی میں شریک دیگر تنظیموں نے بھی بھرتی کیے۔
دو تنظیموں SAM فار رائٹس فار اینڈ لبرٹیز اور یورو میڈیٹرینین ہیومن رائٹس مانیٹر‘ کی ایک تحقیق کے مطابق یمنی حکومت کے اتحادی گروپوں نے بھی بچوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کیا، خاص طور پر جنوبی صوبوں تائز، لہج اور ابیان میں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کم عمر فوجی جو حکومتی فورسز کا حصہ بنتے ہیں وہ وہاں مختلف طریقوں سے پہنچتے ہیں۔ اس بارے میں مختلف افواہیں موجود ہیں مگر ڈی ڈبلیو ان میں سے کسی کی بھی تصدیق کرنا ممکن نہ ہو سکا۔
ایک کہانی یہ بھی ہے کہ ایک فوجی نے اپنے بیٹے کو اس لیے لڑائی کے لیے بھیجا کیونکہ وہ بچے کی تنخواہ کا متمنی تھا۔ ایک اور کہانی یہ بھی ہے کہ بڑے بھائی نے بظاہر اپنے چھوٹے بھائی کو بھرتی ہونے پر راضی کیا۔ جبکہ ایک اور معاملے میں جنگ میں مرنے والے ایک فوجی کا بیٹا اپنے والد کی جگہ لینا چاہتا تھا تاکہ خاندان کے اخراجات کا بندوبست کیا جا سکے۔
پڑھائی کے ذریعے پراپیگنڈا
یہ وہ معاملہ ہے جہاں حوثی باغی واقعی الگ ہوتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم تنظیم SAM فار رائٹس اینڈ لبرٹیز کے سربراہ توفیق الحمیدی نے اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں گروپوں کے بھرتی کرنے کے طریقہ کار کا آپس میں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ الحمیدی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بہت ہی کم بچے ایسے ہیں جو یمنی حکومتی فوج میں شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے سے بھی اکثر کو گارڈ وغیرہ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔
مگر حوثیوں کے حوالے سے صورتحال بالکل ہی مختلف ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے فروری 2021ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2014ء میں یمنی تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے حوثی باغیوں نے 10 ہزار سے زائد بچوں کو بطور فوجی بھرتی کیا۔
اس اسٹڈی کے مطابق، ''حوثیوں نے جانتے بوجھتے تعلیمی نظام کو تشدد کو ہوا دینے اور طلبہ کو اپنے افکار کی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کیا۔۔۔ اس مقصد کے لیے ایسے لیکچرز کا استعمال کیا گیا جس میں فرقہ وارانہ پراپیگنڈا اور فوجی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔‘‘
یمن میں بچوں کے حقوق کی تنظیم SEYAJ کے مطابق حوثی باغی سمر کیمپ کے نام سے چھ ہزار سے زائد تربیتی مراکز چلا رہے ہیں جہاں بچوں کی اس طرح کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ہر ایک کیمپ میں کسی ایک وقت میں کم سے کم بھی 100بچے موجود ہیں۔ یہاں بچوں کو لڑائی کی تربیت دے کر انہیں لڑنے کے لیے فرنٹ لائنز پر بھیجا جاتا ہے۔
ایک نسل جو اپنا مقصد کھو چکی ہے
اس طرح چھوٹے بچوں کو بطور فوجی بھرتی کرنا ایک ٹائم بم کی طرح ہے۔ یہ کہنا ہے کہ یمن کے سابق وزیر برائے انسانی حقوق محمد عسکر کا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں کی طرف سے چلائے جانے والے سمر کیمپوں بچوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے: ''ان کے دماغوں کو نفرت سے اور مرگ بر امریکا جیسے نعروں سے بھرا جا رہا ہے۔‘‘ عسکر کے بقول، ''ہم ان بچوں کو ایک عام معاشرے میں واپس کس طرح ضم کر سکیں گے۔‘‘
یہ رپورٹ ابتدائی طور پر عربی زبان میں شائع ہوئی۔ کہانی کے مصنف احمد عمران ایک فرضی نام ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ادارتی ٹیم کو مصنف کے اصل نام کا معلوم ہے تاہم اس کی سلامتی کو لاحق خطرات کے سبب اس کا اصل نام یہاں نہیں دیا جا رہا۔