کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کا تنازعہ، مذاکرات پر زور
8 فروری 2011یہ نئی پیش رفت اُس وقت سامنے آئی ہے جب کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن سین نے اقوام متحدہ سے دراخواست کی کہ وہ ان جھڑپوں کے خاتمے کے لیے براہ راست مداخلت کرے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی سرحدوں کے مابین نو سو سال پرانے ہندو مندر Preah Vihear کے دیرینہ تنازعے پر شروع ہونی والی ان نئی جھڑپوں میں اب تک کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پیر کی رات گئے تک فائرنگ کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ دونوں ممالک اس تاریخی مندر پر تنازعہ رکھتے ہیں۔ اس مندر کو یونیسکو نے عالمی سطح پر ایک تاریخی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ سن 1962ء میں بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ پریہا ویہار نامی یہ مندر کمبوڈیا کے سرحدی علاقے میں آتا ہے تاہم اس کے اردگرد کا علاقہ ابھی بھی متنازعہ ہی ہے۔
اس تنازعہ پر نئی جھڑپوں کا آغاز جمعہ کو ہوا۔ اب تک جس کے نتیجے میں کم ازکم پانچ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔ جھڑپوں کی وجہ سے اس علاقے میں رہنے والے ہزاروں لوگ بھی محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کمبوڈیا کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس علاقے میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ اپنے خصوصی امن فوجی دستے روانہ کرے۔ کمبوڈیا کے ایک تجزیہ نگار ہانگ چھایا کہتے ہیں کہ وزیراعظم ہن سین کی طرف سے اس نئے بیان کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف تھائی وزیراعظم ابھیست ویجا جیوا نے ایسے تمام الزامات رد کیے ہیں کہ بنکاک حکومت نے کمبوڈیائی سرحدوں کے اندر تک شیلنگ کی ہے۔ سلامتی کونسل کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق ویجا جیوا نے کہا کہ کمبوڈیائی افواج نے ان کے ملک کی خود مختاری کا احترام نہیں کیا ہے۔
تھائی حکام نے کہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔ اس مخصوص صورتحال میں علاقائی رہنماؤں نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے زور دیا ہے کہ اس تنازعہ کے حل کے لیے دونوں ممالک کوایک ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصفطیٰ