کمیونسٹ جرمنی نے اپنے شہریوں کے اثاثے کیسے چھینے؟
30 دسمبر 2020سابقہ مشرقی جرمنی کی حکومت کی بیس دسمبر سن 1961 کی ایک خفیہ دستاویز کے مطابق کئی شہریوں کی قیمتی اشیاء اور بینکوں میں موجود سرمائے کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں تھا۔ اس لیے حکومت نے معلومات جمع کرنے کا عمل شروع کیا تھا تا کہ یہ اثاثے غلط افراد کے ہاتھ نہ لگیں۔ یہ دستاویز اس ریاستی آپریشن سے متعلق تھی جس کا جرمن زبان میں نام 'آکسیئون لِشٹ‘ (Aktion Licht) یا انگریزی میں 'لائٹ مشن‘ تھا۔
یہ بھی پڑھیے:جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد سابقہ مشرقی جرمنی کے کاروباری خاندانوں کی واپسی
آپریشن لائٹ مشن
بیس دسمبر 1961 کے فیصلے کی روشنی میں شہریوں کے قیمتی اثاثوں کو سرکاری ملکیت یا پبلک پراپرٹٰی قرار دینے کا عمل خفیہ ادارے اسٹیٹ سکیورٹی سروس کو سونپا گیا۔ اس خفیہ ایجنسی کا مقبول نام 'اسٹاسی‘ تھا۔ اس آپریشن کا بنیادی مقصد کمیونسٹ ریاست جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خزانے کو غیر ملکی زرِ مبادلہ سے بھرنا تھا۔ اس کے لیے عام شہریوں کے قیمتی اثاثہ جات، جن میں نامور مصوروں کی پینٹنگز، چاندی کے برتن، پرانی ڈاک ٹکٹ، پورسلین اور دوسرا ذخیرہ کیا گیا بیش قیمت سامان ریاستی ملکیت میں لانا تھا۔
خفیہ مشن
اس مشن کی تفصیلات خفیہ ایجنسی اسٹاسی کے محدود افراد پر ظاہر کی گئی تھیں۔ شہریوں کو ان کے قیمتی سامان سے محروم کرنے کے مشن کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تا کہ اس کی اطلاع پا کرعام لوگ اپنا قیمتی سامان چھپانا شروع نہ کر دیں۔ ایک جرمن مؤرخ ہنری لائیڈ کے مطابق اسے خفیہ اس لیے رکھا گیا تا کہ لوگوں میں اور بین الاقوامی سطح پر کمیونسٹ حکومت ہر عدم اعتماد پیدا نہ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیے:سابقہ مشرقی جرمنی برطانوی نشریاتی ادارے کا دشمن کیسے بنا؟
حکومت کا خیال تھا کہ ایسا ہونے سے سابقہ مشرقی جرمنی کی حکومت کا اقتصادی اور بیکنگ نظام منہدم ہو سکتا تھا۔ بعد میں ان اثاثوں کو کمیونسٹ ریاست کے اس پراپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کیا گیا جو اس وقت کی مغربی جرمنی کی حکومت کے خلاف کیا جا رہا تھا۔ کمیونسٹ ریاست مغربی جرمنی کو ایک 'فاشسٹ ریاست‘ سے تعبیر کرتا تھا۔ اسی خفیہ آپریشن میں اس کا بھی تعین کیا گیا کہ کس بینک کا کون سا ملازم اسٹاسی کے ساتھ مکمل تعاون کر سکتا تھا۔
ثقافتی اثاثے ہتھیانے کا عمل
اس آپریشن کے دوران خفیہ اہلکاروں نے لاکرز، تجوریوں، فیکٹری عمارتوں، ذاتی مکانات، عجائب گھروں اور گرجا گھروں کی تلاشی کے دوران تمام قیمتی سامان کو ضبط کر لیا۔ اس کے علاوہ اُن افراد کے مکانات کو بھی نشانہ بنایا گیا، جو اس وقت کے مغربی جرمنی منتقل ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ قیمتی سامان کے حامل افراد پر بھاری ٹیکسوں کا نفاذ بھی کر دیا گیا تا کہ ان کے مالکان خود سے یہ سامان حکومتی تحویل میں دے دیں۔
یہ بھی پڑھیے:کمیونسٹ جرمنی کی خفیہ پولیس کا دفتر مہاجرین کی رہائش گاہ
ریسرچ کا ایک نیا پہلو
ابھی تک سابقہ جرمن ریاست کے قبضے میں لوگوں کا سامان اور قیمتی اشیاء کی تفصیلات اور کھوج پوری طرح لگانا باقی ہے۔ اس باعث اس تلاش و تفتیش کے عمل نے ریسرچ کا ایک نیا دروازہ کھول دیا۔ ریسرچ کرنے والے اولین افراد میں سے ایک پروفیسر مشیل بُش ہیں۔ انہوں نے جرمن ریاست شویرین کے عجائب گھر کی انوینٹری یا اندر رکھے ہوئے تمام سامان کے اندارج کے رجسٹروں کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جن عجائب گھروں میں ابھی بھی قیمتی سامان رکھا ہوا ہے، ان کی اصل مالکان کو واپسی لازمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سن 1945 سے 1990 تک شویرین کے عجائب گھروں میں ڈیڑھ سے دو فیصد نمائشی اشیا کا ذریعہ دستیاب نہیں ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ آپریشن لائٹ مشن کا نتیجہ ہے۔
رائنا برؤئر/ الزبتھ گرینیئر (ع ح / ب ج)