پاکستان کو امداد دی جائے گی لیکن شرائط کے ساتھ
10 جنوری 2023جنیوا منعقدہ ''ڈونرز کانفرنس‘‘ میں عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کیساتھ اس ملک کی اقتصادی اور سماجی صورتحال کو ابتر کرنے کا سبب بننے والے حالیہ سیلاب پر یکجہتی کا اظہار تو کیا گیا لیکن ڈونر ممالک کی طرف سے پاکستان کی سیاسی افراتفری اور کرپشن وغیرہ جیسے موضوعات پر بھی غیر معمولی توجہ مرکوز رہی۔ یورپ کے دیگر ممالک کیساتھ ساتھ جرمنی نے بھی پاکستان کے لیے عالمی امداد میں اپنا حصہ ڈالنے کی بات کی ہے۔
تخمینہ کیا لگایا گیا؟
جنیوا میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں متفقہ طور پر یہ کہا گیا کہ سیلاب کی تباہی کے بعد پاکستان میں بہت سے شعبوں کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس ناگہانی آفت سے پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ لگاتے ہوئے کہا گیا کہ اس ملک کو آئندہ پانچ سے سات برسوں کے دوران تقریباً 16 ارب ڈالر کی مالی امداد کی ضرورت ہے۔ کانفرنس کے موقع پر تاہم یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو مذکورہ رقم کے نصف حصے کا بندوبست خود کرنا ہو گا۔
جرمنی کا وعدہ
پاکستان کی تشویش ناک اقتصادی صورتحال کے پیش نظر اسلامی ترقیاتی بینک نے 4.2 بلین ڈالر جبکہ جرمنی نے 84 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جرمنی کی طرف سے امدادی رقم کو بالخصوص سیلاب کے پانی کو روکنے اور نکاسی آب کے نظام کی تعمیر پر صرف کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
وفاقی جرمن پارلیمان میں جرمنی کی ترقیاتی امور کی وزارت کے ریاستی سیکریٹری یوخن فلاس بارتھ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال کے دوران اس میں مزید اضافے کی اُمید ہے۔ پاکستان کو عطیہ دینے والے دیگر ممالک کے حکومتی نمائندوں کی طرح جرمنی کے ریاستی سیکریٹری یوخن فلاس بارتھ نے بھی پاکستان سے ملک میں اصلاحات کے مطالبے پر زور دیا۔ ان اصلاحات میں سے ایک اہم کا تعلق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے اُس پروگرام سے ہے، جس میں دیگر امور کیساتھ ساتھ سبسڈی میں کمی اور ٹیکس یا محصولات میں اضافے کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
جنیوا ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ان اقدامات میں تاخیر کے سلسلے میں نرمی کی درخواست کی کیونکہ ان کے بقول اس وقت ان کی حکومت کے لیے انسانی امداد اولین ترجیح ہے۔
شہباز شریف کے لیے چیلنج
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے لیے اس وقت عالمی برادری کو اس بات کا یقین دلانا کہ کرپشن کی وجہ سے فنڈز کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا، ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے پاکستان میں کرپشن کی وجہ سے فنڈز ضائع ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے بیان میں کہا،''تمام مالیاتی امداد کے ہر ایک حصے کا حساب رکھا جائے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ایک چوٹی کے جرمن نمائندے آخم اشٹائنر کا کہنا تھا،''پاکستان کی معیشت کی بحالی ہم سب کے مفاد میں ہے۔‘‘ آخم اشٹائنر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سربراہ بھی ہیں اور انہوں نے جنیوا کانفرنس کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا، '' گلوبلائزڈ ورلڈ میں اگر ہم دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایسی صورتحال سے پیدا ہونے والے مسائل خود ہماری دہلیز پر بھی دستک دے رہے ہیں۔‘‘ آخم اشٹائنر نے ایک ایسے مسئلے کی نشاندہی کی، جس سے پورا یورپ تشویش کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں عوام کے اندر مایوسی اور نا امیدی پھیلتی ہے وہاں کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی ہی واحد راستہ دکھائی دینے لگتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کب آئے گی؟
اس سے مراد یہ ہے کہ سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کے شکار باشندے تارکین وطن بن کر یورپ کی طرف نکل پڑتے ہیں، یہ وہ مسئلہ ہے، جس سے جرمنی 2015 ء میں ُبری طرح دوچار ہو چُکا ہے۔ آخم اشٹائنر نے پاکستان کی تشویشناک صورتحال کے تناظر میں یہ بھی کہا کہ معاشرے میں سیاسی اور معاشی بدحالی باشندوں کو انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا،''جو معاشرے اپنے شہریوں کو بہتر مستقبل اور بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، وہاں انتہاپسندی اور عسکریت پسندی سرطان کی طرح پھیل جاتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ کا کہنا تھا،''کوئی مفت پیسہ نہیں دیتا، ہر ملک، جس نے امداد کا وعدہ کیا ہے، پاکستانی حکومت سے توقعات بھی رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،''امدادی کاموں کے شراکت دار نتائج کی تلاش میں ہوں گے، جیسے کہ احتساب، وضاحت، کارکردگی اور شفافیت۔‘‘
انہوں نے اشارہ دیا کہ ڈونر ممالک ان رقوم کے استعمال اور حکومت پاکستان کی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھیں گے۔
ک م/ ا ا (اے پی)