کورونا وائرس: کرنسی نوٹ قرنطینہ سے باہر آگئے
5 مئی 2020اسٹیٹ بینک نے مارچ کے تیسرے ہفتے میں ملک بھر کے بنکوں کو کرنسی نوٹوں کے ذریعے صارفین کو کورونا وائرس کی منتقلی سے بچانے کے لیے تفصیلی ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کے مطابق صارفین کی طرف سے جمع کروائے جانے والے کرنسی نوٹوں کا دو ہفتوں تک کے لیے دوبارہ اجراء روک دیا گیا تھا۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے ہسپتالوں اور میڈیکل کلینکس کے اکاؤنٹس رکھنے والے بنکوں سے بھی کہا گیا تھا کہ وہاں سے آنے والے کرنسی نوٹوں کو جراثیموں سے پاک کر کے ، الگ بنڈلوں میں باندھ کر چودہ دنوں کے لیے علیحدہ رکھ دیا جائے اور اس رقم کی مالیت سے مرکزی بنک کو آ گاہ کیا جائے تاکہ اس کے برابر رقم بنکوں کو اسٹیٹ بنک کی طرف سے فراہم کی جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت نے سخت اور ٹھوس سطح کے مقابلے میں مسام دار سطح پر وائرس کی زندگی کے مختصر ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس لیے مرکزی بنک کے مطابق ان کرنسی نوٹوں کا چودہ دنوں کے قرنطینہ کے بعد مارکیٹ میں لایا جانا احتیاطی تقاضوں کے مطابق مناسب ہے۔
ایک مقامی بنک میں کام کرنے والے شہزاد نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر بینک کی طرف سے کیشیئرز کو ہینڈ سینی ٹائیزر اور جراثیم کش محلول فراہم کیا گیا ہے اور کیشیئرز کو بار بار ہاتھ دھونے کی ہدایات ہیں۔
پاکستان میں طبی امور کے ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر کاروبار ڈیجیٹل ٹرانزکشنز کی بجائے روپوں کے لین دین سے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق کرنسی نوٹ تیزی سے مختلف ہاتھوں میں گردش کرتے ہیں اس لیے یہ وائرس پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں: ''اس سلسلے میں ان لوگوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو نوٹوں کی گنتی کے دوران بار بار اپنی زبان کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر عاصم کے مطابق اس مسئلے کا دیرپا حل ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال ہے۔ ان کے بقول تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے دنوں میں کارڈ سے ادائیگی کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے: ''بہت سے لوگ اب بینکوں میں جانے کی بجائے بینکوں کی ایپ استعمال کر کے رقم ٹرانسفر اور بل ادا کرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے مطابق اگر کرنسی نوٹوں کا استعمال ناگزیر اور زیادہ ہو تو پھر ہاتھوں پر پلاسٹک بیگ کا استعمال کرنا مناسب ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورونا بحران کے دوران پاکستان میں کرنسی نوٹوں کو جراثیموں سے پاک کرنے کے لیے جراثیم کش سفوف، روشی اور حرارت پیدا کرنے والی مشینوں کو استعمال کیا جا تا رہا ہے۔ بعض لوگ کرنسی نوٹوں کو استری کرکے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
عید کے موقع پر نئے نوٹ جاری نہیں ہوں گے
دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سالہاسال سے جاری اپنی روایت کے بر خلاف اس سال عید الفطر پر نئے کرنسی نوٹ جاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس عید پرعوام، اسٹیٹ بینک کے موجودہ اور سابق ملازمین کو نئے کرنسی نوٹ جاری نہیں کیے جائیں گے۔ اسٹیٹ بینک کی کووِڈ 19 کمیٹی کی طرف سے کیے جانے والے اس فیصلے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ بینکوں میں سماجی فاصلہ رکھنے اور کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا لیکن پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کئی مقامات پر لوگ نئے نوٹ فروخت کرتے آ رہے ہیں۔
مال روڈ کے قریب نئے نوٹ فروخت کرنے والے محمد جمیل نے بتایا کہ اسٹیٹ بنک کو نئے نوٹوں کے اجرا پر پابندی لگانے کی بجائے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان کا اجرا کرنا چاہیے تھا۔ ان کے بقول ایک تو لوگوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے، دوسرے یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہیے کہ اس کاروبار کے ساتھ بھی بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دس روپے والے نئے نوٹوں کا ایک پیکٹ جس کی اصل مالیت ایک ہزار روپے ہوتی ہے اور یہ عام طور پر بارہ تیرہ سو روپے میں ملتا رہا ہے آج کل قلت کی وجہ سے یہ پیکٹ پندرہ سو روپے تک مل رہا ہے۔
پاکستان کرنسی ایکسچینج کے عزیر احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس بھی لوگ نئے نوٹوں کے حوالے سے پوچھنے آ رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کی کرنسی مارکیٹ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، فلائیٹس بند ہونے کی وجہ سے باہر سے لوگ عید کے لیے نہیں آ رہے، اس لیے ماضی کے برعکس اس وقت کرنسی مارکیٹ میں صرف ایک چوتھائی گاہک ہیں۔