کورونا کے خلاف پاکستانی حکومتی اقدامات کافی ہیں؟
15 اپریل 2020آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ 'پالیسی ٹریکر' نامی ایک تجزیے میں دنیا بھر کے ممالک میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی پالیسیوں کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ اس ٹریکر میں پاکستان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ پاکستان نے ایران سے پاکستان پہنچنے والے تین ہزار سے زیادہ زائرین کو قرنطینہ میں رکھا، پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدوں کو بند کر دیا، بین الاقوامی سفری پابندیاں عائد کیں، اسکولوں کو بند کیا، ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے 23 مارچ سے پاکستانی فوج کی مدد بھی حاصل کی۔
اس کے علاوہ پاکستانی حکومت نے 1.2 ٹریلین پاکستانی روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا۔ اس پیکج کے تحت حکومت 200 ارب روپے مزدوروں یا دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد پر خرچ کرے گی، 150 ارب روپے احساس پروگرام کے تحت لوگوں میں بانٹے جائیں گے، 100 ارب ٹیکس ری فنڈ کی مد میں دیے جائیں گے، ایک سو ارب روپے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کمپنیوں کو دیے جائیں گے اور اس کے علاوہ یوٹیلی اسٹورز، گندم کی خریداری، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی وغیرہ جیسے دیگر اقدامات کے ذریعے بھی ریلیف فراہم کی جائے گی۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود کم کر کے اسے گیارہ فیصد کر دیا ہے۔ مرکزی بینک نے قرضہ اسکیم کا بھی اعلان کیا ہے جس سے کاروباری کمپنیاں، ہسپتال اور طبی ادارے مستفید ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں اقتصادی امور کے ماہرین کی رائے میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔ اسی موضوع پر ایک روز قبل پاکستانی اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی نے ڈی دبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو اقتصادی پالیسی کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں یہ بتانا ہو گا کہ ان غیر معمولی حالات میں حکومت نہ ٹیکس اکٹھا کر سکتی ہے اور نہ ہی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر سکتی ہے اور معیشت میں تیزی لانے کے لیے اسٹیٹ بینک کو شرح سود کم کرنا ہوگا۔