1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کولون میں خواتین پر جنسی حملے: مجرموں کی ملک بدری میں اضافہ

مقبول ملک13 جنوری 2016

جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس نے کہا ہے کہ سالِ نو کے موقع پر کولون میں تارکین وطن کی طرف سے خواتین پر جنسی حملوں کے بعد قانونی سختیوں کے نتیجے میں جرمنی سے اور زیادہ تعداد میں غیر ملکی مجرم ملک بدر کیے جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1HcJx
Köln Pegida rechte Demonstranten
کولون میں خواتین پر جنسی حملوں کے واقعات کے بعد مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہےتصویر: Reuters/W.Rattay

وفاقی دارالحکومت برلن سے بدھ تیرہ جنوری کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق وزیر انصاف ہائیکو ماس اور ملکی وزیر داخلہ ٹوماس ڈے میزیئر نے کل منگل بارہ جنوری کے روز اس حکومتی منصوبے کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں آپس میں مشورے کیے، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے جرمنی سے جرائم کے مرتکب غیر ملکیوں کو آئندہ زیادہ تعداد میں اور تیز رفتاری سے ملک بدر کیا جا سکے گا۔

تیز رفتار ملک بدری سے متعلق نئے اقدامات ان مجرموں کے لیے کیے جائیں گے، جو جسمانی یا جنسی حملوں میں ملوث ہوں گے، پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈالیں گے یا پھر عوامی یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوئے ہوں گے۔ یہ وہ جرائم ہیں، جن کے مرتکب افراد کو اب تک مروجہ ملکی قوانین کے تحت سزائیں تو سنائی جا سکتی ہیں لیکن انہیں تیز رفتار کارروائی کے نتیجے بعد ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔

وفاقی وزیر انصاف ہائیکو ماس نے آج بدھ کی صبح جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’یہ بات یقینی ہے کہ جرمنی سے مجرموں کی ملک بدری کے واقعات میں آئندہ واضح اضافہ ہو گا۔ اس کا سبب وہ قانونی ترامیم بنیں گی، جن کے لیے ہم ملک بدری سے پہلے کی لازمی شرائط میں نرمی اور کمی لاتے ہوئے اس عمل کو آسان اور تیز رفتار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

جرمن وزیر انصاف نے تاہم یہ بھی کہا کہ جرائم کے مرتکب ایسے غیر ملکی مجرموں کو پھر بھی ملک بدر نہیں کیا جائے گا، جن کے آبائی ملک جنگوں اور بحرانوں کا شکار ہیں یا جنہیں اپنے وطن واپسی پر سزائے موت، اپنے خلاف انتقامی کارروائی یا پھر ایذا رسانی کا شدید خطرہ ہو۔

اکتیس دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات سالِ نو کے موقع پر کولون اور دوسرے جرمن شہروں میں زیادہ تر غیر ملکیوں کے ہاتھوں جنسی حملوں کا نشانہ بننے والی اب تک 600 سے زائد خواتین اس سلسلے میں باقاعدہ مقدمے درج کروا چکی ہیں۔ ان سینکڑوں خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں جسمانی طور پر ہراساں کرنے اور جنسی حملوں کا نشانہ بنائے جانے کے علاوہ کئی واقعات میں ان کے پاس موجود قیمتی اشیاء بھی چھین لی گئی تھیں۔

Hauptbahnhof Köln Sylvester Ausschreitungen Menschenmassen
صرف کولون میں سینکڑوں خواتین نے پولیس کو شکایات درج کرائیں کہ انہیں اس رات جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیاتصویر: Getty Images/AFP/M. Böhm

جرمن پولیس اس بارے میں اپنی چھان بین ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تفتیش کا محور سیاسی پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے علاوہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو بھی بنائے ہوئے ہیں، جن کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقی ملکوں سے ہے۔

وزیر انصاف ہائیکو ماس نے غیر ملکی مجرموں کی ملک بدری سے متعلق جن نئی قانونی سختیوں کا اشارہ دیا ہے، ان کے لیے پہلے جرمن کابینہ کی طرف سے تائید ضروری ہو گی، جس کے بعد ان تجاویز کو ایک قانونی مسودے کی صورت میں لازمی منظوری کے لیے جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ میں پیش کیا جائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں