کورونا سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی علامات باقی، نئی تحقیق
9 جنوری 2021ايک تازہ طبی مطالعے کے نتیجے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ کووڈ انيس کے مریضوں کی اکثريت ميں مکمل صحت يابی کے کئی کئی ماہ بعد بھی اس بيماری کی کم از کم ايک علامت برقرار رہتی ہے۔ اس تحقيق سے پتا چلا ہے کہ تين چوتھائی سے بھی زائد مريضوں ميں صحت يابی کے چھ ماہ بعد تک ايک علامت باقی رہتی ہے۔ سب سے زيادہ پائی جانے والی علامت شديد تھکاوٹ کا احساس اور پٹھوں ميں درد تھی۔ چند مريضوں ميں نيند کی کمی بھی نوٹ کی گئی۔
کووڈ انيس کے طويل المدتی اثرات
يہ مطالعہ کووڈ انيس کے طويل المدتی اثرات کا جائزہ لينے کے ليے چينی شہر ووہان ميں مکمل کیا گيا، جس کے نتائج سائنسی جريدے لَینسٹ ميں شائع ہوئے ہیں۔ مطالعے ميں ووہان کے ايک ہسپتال سے گزشتہ برس جنوری سے مئی کے درميان علاج کے بعد صحت ياب ہونے والے 1,733 مريضوں کا طبی معائنہ کرايا گيا۔ ستاون برس کی اوسط عمر کے مريضوں سے جون اور ستمبر کے درميان سوالات پوچھے گئے تھے۔
بائیو این ٹیک فائزر ویکسین کے عالمی سطح پر استعمال کی اجازت
بھارت: کووڈ ویکسین پر سوالات کیوں اٹھ رہے ہیں؟
انڈونیشیا: علماء کونسل کا کورونا ویکسین کے متعلق فتوی
اس مطالعے کے نتائج پر مشتمل رپورٹ کے مرکزی مصنف اور نيشنل سينٹر فار ريسپیريٹری ميڈيسن کے ماہر محقق پروفيسر بن کاؤ کے مطابق، ''چونکہ کووڈ انيس ايک بالکل ہی نئی بيماری ہے، ہم مريضوں کی صحت پر اس کے طويل المدتی اثرات کو اب آہستہ آہستہ سمجھ رہے ہيں۔‘‘ پروفيسر کاؤ نے مزيد کہا کہ اسٹڈی کے نتائج اس امر کی نشاندہی کرتے ہيں کہ مريضوں کی صحت يابی اور ہسپتال سے رخصتی کے بعد بھی ان کی ديکھ بھال لازمی ہے، بالخصوص ان مريضوں کی جن ميں اس وبائی مرض کی شديد علامات ظاہر ہوئی ہوں۔
اس مطالعے ميں کووڈ انیس سے صحت ياب ہونے والے افراد میں پائی جانے والی اينٹی باڈيز کا بھی جائزہ ليا گيا۔ صحت يابی کے چھ ماہ بعد ايسی اینٹی باڈيز کا تناسب ساڑھے باون فيصد تھا، جس کا مطلب ہے کہ يہ وبائی مرض کسی مریض کو دوبارہ بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کی تازہ عالمی صورتحال
امريکا کی جان ہاپکنز يونيورسٹی کے نو جنوری کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا اب تک تقريباً 89 ملين افراد کو متاثر کر چکی ہے۔ اس وبائی مرض کی وجہ سے دنيا بھر ميں انيس لاکھ چودہ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکا، بھارت اور برازيل اس وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ممالک ہيں۔
ع س / م م (اے ايف پی)