کوڑا جمع کرنے والے لاکھوں بھارتی کارکنوں کے مسائل
6 دسمبر 2011
اظہر کے ہاتھ سیاہ ہو چکے ہیں اور انگلیاں زخمی ہیں۔ وہ یہ ساری چیزیں اسکریپ کے ایک مقامی تاجر کو بیچتا ہے جو اسے ایک سو پچاس روپے یا تین امریکی ڈالر کے برابر رقم ادا کرتا ہے۔ اظہر اور اس کے خاندان کی گزر بسر اسی رقم پر ہوتی ہے جس سے وہ کم از کم ایک وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں۔
اس سے کئی گھنٹے پہلے نئی دہلی میں کناٹ پیلس کے مصروف کاروباری علاقے میں اوشا دیوی کو میونسپلٹی کے گارڈز کے ہاتھوں پریشانی اٹھانا پڑی۔ یہ گارڈز کوڑے کے ڈھیر میں سے مختلف چیزیں جمع کرنے والوں کو کوڑے تک جانے کی اجازت دینے کے لیے رشوت مانگتے ہیں۔
نئی دہلی میں اس طرح کچھ رقم کما کر اپنی گزر بسر کرنے والے مزدوروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان کی اکثریت کا تعلق زیادہ تر نچلے سماجی طبقات سے ہوتا ہے۔ یہ شہری ملک کے دوسرے شہروں اور صوبوں سے دہلی آتے ہیں۔ پہلے ہی سماجی زندگی کے مرکزی دھارے سے کٹے ہوئے اور محرومی کی زندگی بسر کرنے والے ان شہریوں کی زندگی آئندہ اور بھی مشکل ہو جائے گی۔
دارالحکومت نئی دہلی کا شمار بھارت کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں کوڑے کرکٹ کو ماحول دوست انداز میں ٹھکانے لگانے کے بہت بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے کی تیاری کی گئی ہے۔ حکومت ان منصوبوں کو ویسٹ مینیجمنٹ پروجیکٹس کا نام دیتی ہے، جن میں کوڑے کو جلانے والی بہت بڑی بڑی بھٹیاں بھی شامل ہوں گی۔
اس طرح بھارت میں ان غریب کارکنوں کی زندگی اور بھی مشکل ہو جائے گی جو کوڑے میں سے ری سائیکلنگ میں استعمال ہونے والی اشیاء تلاش کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔
کوڑا جلانے والی ایسی بھٹیوں کی مدد سے کوڑے کرکٹ سے بجلی تیار کی جا سکے گی۔ اس طرح تحفظ ماحول کے کیوٹو معاہدے کی رو سے نقد رقم کی صورت میں کاربن کریڈٹ کمایا جا سکے گا اور سبز مکانی یا گرین ہاؤس گیسیں بھی کم خارج ہوں گی۔ یہ خبر بجلی کے پیداواری شعبے کے لیے بہت اچھی اور کوڑے کے ڈھیروں میں سے اپنے لیے روزی تلاش کرنے والے ویسٹ ورکرز کے لیے بڑی بری خبر ہے۔
بین الاقوامی سطح پر کوڑے کے ڈھیروں میں سے دوبارہ قابل استعمال اشیاء جمع کرنے والے کارکنوں نے اپنی ایک تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔ اس تنظیم کا نام کوڑا اٹھانے والوں کا عالمی اتحاد یا Global Alliance of Waste-Pickers ہے۔ اس گلوبل الائنس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر میں پندرہ ملین کے قریب ایسے کارکنوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے جو کوڑے میں سے ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ عالمی اتحاد ایسے کارکنوں کو Informal Recyclers یا ری سائیکلنگ کرنے والے غیر رسمی کارکنوں کا نام دیتا ہے۔
اس اتحاد کی قیادت ڈربن میں جاری تحفظ ماحول کی عالمی کانفرنس کے شرکاء سے مطالبہ کر رہی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے پندرہ ملین ویسٹ ورکرز کے حالات اور مجبوریوں کو بھی سامنے رکھا جائے۔ تحفظ ماحول اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر ڈربن میں جاری کانفرنس نو دسمبر تک جاری رہے گی۔
بھارتی حکومت نے ملک میں ایسے 23 منصوبے مکمل کرنے کا پروگرام بنایا ہے جن میں کوڑا جلانے والی بھٹیاں یا Incinerator بھی شامل ہوں گے۔ ان منصوبوں کو ‘ویسٹ ٹو انرجی پروجیکٹس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن اس طرح ان 1.7 ملین ویسٹ ورکرز کی روزنہ آمدنی اور روزمرہ زندگی خطرے میں پڑ جائے گی جن کے پاس کوئی دوسرا روزگار نہیں ہے۔ اس بارے میں غازی پور میں کوڑے کے ڈھیروں سے مختلف چیزیں جمع کرنے والے محمد اظہر نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران یہ سوال پوچھا، ‘ہم کہاں جائیں گے۔ ہمارے پاس تو کوئی متبادل کام کاج بھی نہیں ہے۔ کیا حکومت چاہتی ہے کہ ہم فاقوں پر مجبور ہو جائیں؟‘
بھارت جیسے ملک میں ویسٹ ورکرز کمیونٹی کا کوئی دھیان نہیں رکھا جاتا۔ وہاں کوڑے کی ری سائیکلنگ کو رواج دینے کی بجائے کوڑا جلانے والی بھٹیاں لگانے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی ماحولیاتی مالی منصوبوں کے تحت بھی یا تو Incineratorلگانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے یا پھر اس امر کو رواج دیا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوڑے کو زیر زمین دبا دیا جائے۔ اس کی ایک مثال Clean Development Mechanism ہے جس کے تحت کوڑا جلانے کی بھٹیاں لگانے اور کوڑے کے Landfill Systems تیار کرنے میں مالی معاونت کی جاتی ہے لیکن وہ Waste Worker جو غیر حیاتیاتی کوڑے کی ری سائیکلنگ کو یقینی بناتےہیں، ان پر کوئی توجہ دینے کی بجائے ان سے ان کا روزگار چھینا جا رہا ہے۔
رپورٹ:عصمت جبیں
ادارت: امجد علی